کراچی (سٹاف رپورٹر) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاقی کابینہ میں مردم شماری کی منظوری پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے نام دوسرا خط لکھ دیا ہے جس میں موقف اختیار کیا کہ مردم شماری کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں زیر التوا ہے ،وفاقی کابینہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر سمری منظور نہیں کرسکتی ہے ۔سید مراد علی شاہ نے خط میں مزید کہا کہ تھرڈ پارٹی سے مردم شماری کروائے بغیر منظوری قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے خط میں صوبوں کے تحفظات دور کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے ۔خط میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئین کے فورتھ شیڈول کے مطابق 2017 کی مردم شماری کی منظوری سی سی آئی میں زیرالتوا ہے ، جس کے لیے وزارت شماریات نے سمری 9 نومبر2017 کو بھیجی تھی۔مراد علی شاہ نے لکھا کہ سی سی آئی نے پارلیمانی پارٹیوں کے درمیان معاہدے کے بعد 2018 عام انتخابات 2017 کی مردم شماری کے تحت کرانے کی اجازت دی اور 27 مارچ 2018 کو بھی سی سی آئی نے 24 نومبر2017 کا فیصلہ برقراررکھا۔سی سی آئی کا اجلاس کا انعقاد نہ ہونے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کا اجلاس کم ازکم 90 روز بعد بھی نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے ، 11 نومبر 2020 کوسی سی آئی کے اراکین کو بتایا گیا کہ وفاقی کابینہ نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور یہ کمیٹی وفاقی وزیرعلی زیدی کی سربراہی میں مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔وزیر اعلیٰ سندھ نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ کا یہ یک طرفہ فیصلہ پارلیمانی پارٹیوں کے درمیان معاہدے کی نفی ہے ، سندھ کو2017 کی مردم شماری پر شدید تحفظات ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کو بتا چکے ہیں کہ مردم شماری میں سندھ کی آبادی درست نہیں دکھائی گئی اور مردم شماری درست نہ ہونے کے واضح ثبوت بھی موجود ہیں، جو سی سی آئی میں بھی پیش کیے جاسکتے ہیں، وزیراعظم سے درخواست ہے کہ معاملے میں مداخلت کریں۔وزیراعلیٰ سندھ نے خط میں کہا ہے کہ کمیٹی کو ہدایت کی جائے سی سی آئی کے فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے ، سی سی آئی کے فیصلے کے مطابق صوبوں کے تحفظات دورکیے جائیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ صوبوں کے تحفظات دور ہونے تک وفاقی حکومت کے فیصلے کو کالعدم سمجھا جائے ۔