ایک قانونی اور سماجی سہولت موجود ہے کہ لڑکی خود کو غیر محفوظ سمجھے تو دار الامان میں پناہ لے سکتی ہے۔روزانہ اسیے کئی واقعات سامنے آتے ہیں لیکن ہمارے سماج میں کئی بار ،کسی وجہ سے مرد بھی خود کو تنہا اور غیر محفوظ سجھنے لگتا ہے ،ایسی سورت میں وہ کہاں پناہ لے۔ کیونکہ مردوں کی پناہ کے لیے دار الامان کی طرز پر کوئی جگہ نہیں بنائی گئی اس سے میریذہن میں آیا کہ کیا مرد کے ساتھ کچھ برا نہیں ہو سکتا ،کیا مرد کو اپنی جان بچانے کے لیے کسی مدد کی ضرورت نہیں پڑ سکتی ؟ اگر مرد کو اپنی جان بچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہو تو وہ کیا کرے ؟ شائد دنیا یہ سمجھتی ہے کہ مرد بظاہر عورت کے مقابلے میں طاقتور ہے تو اس لیے وہ اپنی حفاظت خود کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر مرد بظاہر طاقتور بھی ہے تو کیا مرد کا مدد حاصل کرنے کا حق ختم ہو جاتا ہے۔ مردوں کے لیے امریکہ میں 2اور انگلینڈ میں 20 شیلٹر ہومز موجود ہیں لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان میں مردوں کے لیے ایک بھی حفاظتی شیلٹر ہوم موجود نہیں ہے۔ دنیا نے اگرچہ بہت کم لیکن محسوس تو کیا ہے کہ مردوں کو بھی پناہ گاہ کی ضرور ت پڑ سکتی ہے۔ پاکستان میں لڑکوں اور نوجوانوں کو پناہ کی ضرورت ہوتی ہے ،جب پناہ نہیں ملتی تو وہ فرار کا راستہ اپناتے ہیں ،کئی بار جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا تو نہیں کہ حکومت اس ایشو کو سنجیدگی سے دیکھے گی لیکن بقول شاعر۔ دروازے پر تالا ہو تو پھر بھی دستک دے دینا نام تو شامل ہو جائے گا دستک دینے والوں میں (محمد عمر منظور چوہدری،ساہیوال)