معزز قارئین!۔ قیام پاکستان کی جنگ میں مشرقی (اب بھارتی) پنجاب میں سِکھوں کا مقدس شہر امرتسر ، آل انڈیا مسلم لیگ کا بہت بڑا مورچہ تھا ، وہاں میرے خاندان کے بھی کئی افراد سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ، لیکن آج مَیں اپنے کالم میں اپنے ایک دوست( "P.E.M.R.A" کے موجودہ چیئرمین پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد ) مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا تذکرہ کر رہا ہُوں ، جن کی کل ( 6 مئی کو ) 19 ویں برسی منائی گئی۔ تحریکِ پاکستان کے دوران ، خوش شکل، خوش پوش اور خوش دِل مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا۔ فروری 1964ء سے جولائی 1965ء تک مَیں سرگودھا میں جناب مجید نظامی کے روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار رہا ۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔ ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد سرگودھا میں ’’مادرِ ملّت‘‘ کی انتخابی مہم کے انچارج تھے ۔ دسمبر 1964ء میں قاضی صاحب مجھے اور میرے ایک صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کی ’’ مادرِ ملّت ‘‘ سے ملاقات کروانے کے لئے لاہور لے گئے ۔ مادرِ ملّت ، لاہور میں ’’کونسل مسلم لیگ ‘‘ کے ایک لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر قیام پذیر تھیں ۔ قاضی مُرید احمد صاحب نے وہاں میری اور تاج اُلدّین حقیقتؔ کی مادرِ ملّت سے ملاقات کرائی تو اُسی وقت لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور تحریکِ پاکستان کے ایک دوسرے کارکن ( پاک پتن شریف کے ) میاں محمد اکرم کی بھی مادرِ ملّت سے ملاقات ہُوئی۔ میاں محمد اکرم ( مرحوم) ’’ نوائے وقت‘‘ کے سینئر رُکن اور نامور شاعر برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد تھے ۔ بعد ازاں جب مجھے لاہور کے مختلف ’’ بی کلاس‘‘ اخبارات میں کام کا موقع مِلا تو میرا مرزا شجاع اُلدّین بیگ سے بہت زیادہ میل جول ہوگیا۔ 1969ء میں باقاعدہ لاہور "Settle" ہوگیا ۔ یکم نومبر 1971ء کو مَیں نے ہفت روزہ ’’ پنجاب‘‘ لاہور جاری کِیا تو ، مرزا شجاع اُلدّین بیگ سے میری مسلسل ملاقاتیں ہونے لگیں۔ اِس سے پہلے دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کا ’’روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ بہت زَور پکڑ گیا تو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ کہا کرتے تھے کہ ’’ بھٹو صاحب نے ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان ‘‘ کا نعرہ ۔ قصور کے صوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ ؒکے کلام سے متاثر ہو کر تخلیق کِیا ہے۔ بابا بُلّھے شاہؒ نے تو ، بہت پہلے ہی اللہ کے ہر بندے کو یہ دُعا مانگنے کی تلقین کی تھی کہ … منگ اوئے بندیا، اللہ کولوں، گُلّی ، جُلّی ، کُلّی! …O… یعنی۔ ’’اے بندے! تو اللہ سے روٹی ، کپڑا اور مکان مانگ‘‘۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اکثر یہ حدیث رسول مقبولؐ بھی بیان کِیا کرتے تھے کہ ’’ ایک فرد کا کھانا ، دو افراد کے لئے اور دو افراد کا کھانا تین افراد کے لئے کافی ہوتا ہے‘‘۔ ایک روز وہ شاید تقریر کے موڈ میں تھے ، مجھے اور اپنے کئی دوستوں کوکہہ رہے تھے کہ ’’ باب اُلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؑ ؑ نے فرمایا تھا کہ ’’ ہر اِنسان کے لئے روزانہ ایک دِن کا کھانا، سادہ لباس اور سر چُھپانے کے لئے چھت کافی ہے‘‘۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ ہر مَتمول مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے وسائل سے غریب مسلمانوں اور غیر مسلموں کو بھی فیض یاب کرے!‘‘۔ بیگ صاحب، اخباری فوٹو گرافروں سے تصویر کھنچوائے بغیر ، بیوائوں ، یتیموں اور ناداروں کی مدد کِیا کرتے تھے اور اکثر علاّمہ اقبالؒ کا یہ شعر بھی سُنایا کرتے تھے … خُدا کے بندے تو ہیں ، ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں ، مارے مارے! مَیں اُس کا بندہ بنوں گا جِس کو، خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا! …O… قیام پاکستان کے بعد مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ، وہ بہت مہمان نواز تھے ۔ مجھے اور کئی دوستوں کو اپنے مہمان بنا کر لاہور میں مُغل بادشاہوں کی تعمیر کردہ عمارتوں اور باغات میں پکنک منانے کے لئے لے جاتے تھے ۔ ایک دِن مَیں اور ہمارے دوسرے دوست شالا مار باغ میں مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ’’ عوامی جمہوریہ چین کے سیّاحوں کا ایک گروپ وہاں آگیا۔ اُن میں سے دو چینی سیّاح ہمارے ساتھ فر،فرؔ اردو بولنے لگے تو ،مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے اُن سے کہا کہ ’’ پاکستانی قوم اپنے عظیم لیڈر قائداعظمؒ سے بہت محبت کرتی ہے اور آپ کے عظیم لیڈر مائوزے تنگ سے بھی، جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی کُھل کر امداد کی تھی‘‘۔ اِس پر چینی سیّاحوں نے بیگ صاحب اور ہم سب کو "Salute" کِیااور پاک چین دوستی کے نعرے لگائے۔ معزز قارئین!۔ 5 جولائی 2011ء کو انتقال کرنے والے لاہور کے نامور قانون دان اور سیاستدان ملک حامد سرفراز (امرتسری) سے بھی میری دوستی تھی۔ جب بھی ہمارے دوستوں کی محفل میں ملک حامد سرفراز اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ اکٹھے ہوتے تو وہ دونوں اپنے شہر امرتسر ، خاص طور پر تحریکِ پاکستان کے دِنوں کے امرتسر کی یادیں تازہ کرتے ۔ امرتسر کے مسلم ہائی سکول میں ملک حامد سرفراز کے والد صاحب ملک اللہ یار ہیڈماسٹر تھے اور ملک حامد سرفراز اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ ، طالبعلم جو، مسلم لیگ کے زیر اہتمام جلوسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور وہ دونوں اپنے مسلمان دوست طلبہ کو بھی اُن جلوسوں میں شرکت کے لئے لے جاتے۔ اِس طرح کی یادوں کو تازہ کرتے ہُوئے اہلِ محفل کو ہمارے اُن دونوں امرتسری دوستوں کے چہرے روشن روشن دِکھائی دیتے۔ ملک حامد سرفراز صاحب کی اولاد سے میرا رابطہ نہیں رہا لیکن، مَیں جب بھی مرزا محمد سلیم بیگ اور اُن کے تینوں فرزندان 20 سالہ موسیٰ سلیم بیگ ، 17 سالہ سلیمان سلیم بیگ اور 15 سالہ خضر سلیم بیگ کو دیکھتا ہُوں تو ، مَیں اُن تینوں کے چہروں میں اُن کے دادا مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا چہرہ دیکھ رہا ہوتا ہُوں ۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ ’’ پوتا/ پوتے اپنے دادا کا دوسرا رُوپ ہوتا ہے/ ہوتے ہیں‘‘ ۔ 20 جون 1998ء کو مرزا محمد سلیم بیگ کی شادی ہُوئی تو، مَیں لندن میں تھا۔ واپس آیا تو اُس نے اپنی دُلہن طاہرہ ؔسے میری ملاقات کرائی اور کہا کہ "Sir" یہ ہے آپ کی بہواور یہ بھی آپ کی طرح راجپوت ہے ؟‘‘۔ مَیں نے دُلہن سے کہا کہ ’’ بیٹی!۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ ’’ میری اور تمہاری شادی ’’ وَٹے سٹّے ‘‘ کی شادی ہے؟‘‘۔ طاہرہ نے کہا کہ ’’ وہ کیسے؟۔ مَیں نے کہا ، اِس لئے کہ ’’ مَیں راجپوت ہُوں اور میرا سُسرال ’’برلاس مُغل بیگ‘‘ ہے اور تم بھی راجپوت اور تمہارا سسرال بھی ’’برلاس مُغل بیگ!‘‘۔ معزز قارئین!۔ پھر مرزا محمد سلیم بیگ اور بیگم طاہرہ سلیم بیگ نے میرا مؤقف درست تسلیم کرلِیا، جس کی وجہ سے مرزا شجاع اُلدّین بیگ سے میری دوستی دِن بدن پختہ ہو رہی ہے اور اِسے مزید پختہ بنانے میں اسلام آباد میں بیاہتا میری سب سے پیاری بیٹی ، عاصمہ معظم ریاض چودھری اور اُس کے 8 سالہ بیٹے علی امام چودھری کا بھی اہم کردار ہے ۔ اُن دِنوں مرزا محمد سلیم بیگ حکومت پاکستان کے "P.I.O" (پرنسپل انفارمیشن آفیسر تھے) جب، مَیں نے 20 اکتوبر 2017ء کو لاہور میں اپنے ’’ ڈیرے‘‘ پر ، ’’پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل سیّد اعجاز حسین شاہ کی 32 سال کی سروس کے بعد ریٹائرمنٹ پر اپنے دوستوں کو مدّعو کِیا تھا۔ میری فرمائش پر ہم سب دوستوں نے مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی 83 ویں سالگرہ منائی گئی۔ ’’ مہمان خصوصی سیّد اعجاز حسین شاہ ، برادرِ محترم جمیل اطہر قاضی اور دوسرے برادرانِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف، سیّد سلیم بخاری، سعید آسیؔ، سیّد شاہد رشید، مدثر اقبال بٹ اور قمر اعوان نے مرزا محمد سلیم بیگ کو اپنے (زندہ و جاوید ) والدِ محترم کی سالگرہ کا کیک کاٹتے دیکھا۔ علاّمہ اقبالؒ نے تو پہلے ہی فرمایا تھا کہ… مرنے والے ، مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں! وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں!