قومی اور بین الاقوامی سطح پر ’’دینی مدرسہ سسٹم‘‘ کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تانے دینی مدارس سے منسلک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جبکہ دوسری طرف دینی مدارس کے فارغ التحصیل۔ دور حاضر میں دینی اور عصری تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کو تیار نہ ہیں۔ جدید عصری تناظر میں صاحبان محراب و منبر‘ اصحاب سجادہ و ارباب مسند تدریس کو اخلاص‘ محبت ‘ رواداری‘ انسان دوستی اور تحمل و برداشت جیسے جذبوں سے سرشار ہونے کی اشد ضرورت ہے‘ جس کے لئے ’’صوفیانہ انداز فکر و عمل‘‘ اپنانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ بنیادی سوال دینی مدارس میں ’’تصوف‘‘ کی تدریس سے متعلق ہے۔ ٭اسلامی دنیا کا نظام و نصاب تعلیم‘ غزنی ‘ غور اور خراسان سے لاہور‘دہلی ‘ آگرہ ‘ اجمیر اور ہندوستان کے دوسرے شہروں میں پہنچا۔ اس علمی روایت کے تسلسل میں برصغیر پاک و ہند کے مدارس میں کم و بیش وہی نصاب رائج ہوا جو دیگر اسلامی ممالک میں تھا۔٭ سلطان محمود غزنوی کے عہد میں دینی مدارس کے نظام تعلیم میں اہم اور بنیادی مضامین چار تھے۔1تفسیر۔2 حدیث۔ 3فقہ ۔4تصوف دینی مدارس میں تصوف کی تدریس اہم مضمون کے طور پر کم و بیش 700برس تک جاری رہی۔ تاآنکہ ملا نظام الدین سہالوی(متوفی 1748ء نے اٹھارویں صدی میں موجودہ درس نظامی کے نصاب سے تصوف کو بطور مضمون تدریس سے خارج کر دیا۔٭ تزکیہ نفس تعمیر سیرت اور تشکیل کردار جیسے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے مشائخ متقدمین کے ملفوظات اور ان کے باطنی اشغال اور روحانی معاملات و کیفیات سے اکتساب فیض سے اعراض پیدا ہو گیا اور صاحبان محراب و منبر اور ارباب مسند تدریس حکمت‘ برداشت اور حوصلہ کی بجائے مناظرہ و مجادلہ کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ 1 ۔یہ کالم موجودہ درس نظامی اور مدارس دینیہ کے حالیہ تدریسی ڈھانچہ کو سامنے رکھ کر تحریر کیا گیا ہے۔ پہلی بحث: برصغیر میں صوفیا کی آمد اور مدارس دینیہ کی ترویج ۔دوسری بحث: مدارس دینیہ کے نصاب کی تشکیل کے مختلف مراحل ۔تیسری بحث:موجودہ درس نظامی کی تشکیل ۔چوتھی بحث: تصوف کا اخراج اور اس کے اثرات شریعت اسلامی کا بنیادی ہدف انسان کی مجموعی اصلاح ہے۔ انسان کا وجود دو جہتوں کا حامل ہے۔ 1۔ظاہری یا مادی جہت ۔2باطنی یا روحانی جہت۔ان جہتوں کا مناسب ربط اور ان کی ہمہ پہلو توازن ہی خوبصورت زندگی کا مظہر ہے۔ انسان کی ضرورت یہ ہے کہ اس کا اظہری یعنی مادی وجود بھی توانا اور اس کا باطن یعنی روحانی وجود بھی فعال رہے۔ ظاہر و باطن کا عدم توازن انسان کو متضاد و معاندانہ رویوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔جس سے انسانی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔اسلامی تعلیمات کے بنیادی ماخذ قرآن اور حدیث ہیں۔ جن سے ہر طرح کی راہنمائی کے جملہ اصول و ضوابط میسر ہیں۔ معاشرتی زندگی کے احکام کا تعلق’’علم فقہ‘‘ سے اور تہذیب باطن کے حوالے سے راہنمائی علم التصوف سے میسر آتی ہے۔ علوم ظاہری اور تہذیب باطنی کے معارف و قواعد میں دوری یا مخاصمت نہیں بلکہ قربت اور تعاون ہے۔ تعلیم و تدریس اور علوم و قواعد کو جب فکری راستی اور روحانی تابانی میسر آ جائے تو انسانی زندگی میں حسن اترنے لگتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق یہی احسان ہے۔ان تعبد اللہ کانک تراہ و ان لم تکن تراہ فانہ یراک(1)(احسان یہ ہے) کہ اللہ تعالیٰ کی یوں عبادت کرو کہ جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہ دیکھ پائے تو یوں خیال کر کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔اسلامی تصور علم میں تعلیم و تربیت دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے‘ جس میں ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس دونوں کو ساتھ ساتھ انجام دینا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام تعلیم میں تعلیم اور سیرت سازی کے ایک ہی حقیقت کے دو پہلو رہے ہیں۔ اس کا اظہار علم و فضل کی اصطلاح سے بھی ہوتا ہے جو علم ‘ نیکی اور اخلاق حسنہ جیسے مفاہیم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔(2)نبی کریمﷺ نے مدینہ منور میں ’’صفہ‘‘ کے نام سے پہلی منظم درس گاہ قائم فرمائی۔ جس میں اصحاب صفہ متعلم تھے اور آنحضور ﷺ ان کے معلمِ اعلیٰ۔ صفہ کے انداز و تربیت ہی سے صوفی اور تصوف جیسی اصطلاحات معرض وجود میں آئیں اور صوفیاء نے خانقاہی نظام کو اسی صفہ سے مستفیض و مستنیر کیا۔ ابتدائی چار صدیوں میں ہماری مساجد ہی دینی تعلیم کا مرکز و محور رہیں۔ ایک ایک مسجد میں کئی کئی حلقے اور ان میں پھر کئی ہزار طلبہ کی شمولیت ہماری تاریخ کا زریں باب ہے۔مساجد کے علاوہ باقاعدہ مدارس کی تشکیل کا آغاز پانچویں صدی ہجری میں ہوا۔ اس خطہ میں سب سے پہلا مدرسہ محمود غزنوی نے اپنے پایہ تخت غزنی میں قائم کیا۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنی پوری مملکت میں بے شمار مدارس قائم کئے۔ تاریخ نے سلطان محمود غزنوی کو اس کے عسکری حملوں کی وجہ سے تو یاد رکھا ہے لیکن علم کی دنیا میں جو انقلاب آفرین اقدام اس نے کئے اس کا قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔(3)بلا شبہ غزنوی فتوحات سے ہندوستان کی سیاسی تمدنی اور مذہبی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ سلطان محمود غزنوی نے 999ء سے 1030ء تک ہندوستان کو اپنی جہانکشایانہ ہمت کا بازیچہ بنائے رکھا اور کم و بیش سترہ بار اس کو زیرو زبر کیا۔ جس وقت پنجاب پر غزنویوں کا تسلط قائم ہوا۔ اس وقت تفسیر‘ حدیث ‘ فقہ اور تصوف جیسے تمام اسلامی علوم اچھی طرح نشو و نما پا چکے تھے۔ غزنی جو محمود کے زمانے میں اسلامی عجم کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ ان سب علوم کا گہوارہ بن گیا تھا اور جب پنجاب‘ سلطنت غزنی کا حصہ بنا تو ناممکن تھا کہ وہ دارالحکومت کے ماحول سے متاثر نہ ہوتا۔ بلا شبہ برصغیر میں علوم اسلامی کی ترسیل غزنویوں کے عہد میں ہوئی‘ پنجاب اور پنجاب میں بھی لاہور کو علمی ‘ تمدنی اور دینی اعتبار سے سب سے زیادہ ترقی نصیب ہوئی۔ جہاں الشیخ محمد اسماعیل بخاریؒ کو فضل تقدم حاصل ہوا الشیخ السید علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخشؒ غزنی کے ایک گائوں ہجویر کے رہنے والے تھے۔آپؒ علم و فضل اور زہدو ورع میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ آپ نے اپنے عہد کے مشہور علماء حضرت ابوالعباس بن محمد الاشقانیؒ‘ شیخ ابو جعفر محمد بن الصباح الصیدلانی جیسی ہستیوں سے اکتساب علم کیا اور باطنی اصلاح و تربیت کے لئے شام‘ عراق‘ بغداد‘ آذر بائیجان‘ طبرستان‘ کرمان‘ خراسان‘ ماورا النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا اورمشاہیر صوفیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؒ نے لاہور میں علم و عرفان کی شمع فروزاں کی‘ تصوف و روحانیت کی تعلیمات کو عام کیا اور کشف المحجوب جیسی معرکتہ الآراء کتاب تصنیف فرمائی۔