خصوصی عدالت کے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلے پر عسکری ‘ سیاسی‘ مذہبی اور عام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تفصیلی فیصلے کے پیرا66 میں استعمال ہونے والی زبان کو اسلام‘ اخلاقیات اورآئین و قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔ حکومت نے خصوصی عدالت کے فاضل جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ فیصلہ اور الفاظ انسانیت و مذہب سے بالاتر ہیں۔ خدشات درست ثابت ہوئے‘ ملک اور ادارے کے وقار کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ پاکستان کو داخلی اور خارجی خطرات کا سامنا ہے اور پاک فوج اس کے پیش نظر ہمہ وقت چوکس اور دفاع وطن کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ پاک فوج نے وطن کی حفاظت کے لئے جانی قربانیاں پیش کی ہیں اور دفاع وطن کی مضبوطی کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے جدید دفاعی ہتھیار بھی تیار کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی سرحد پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کو آج تک جرات نہیں ہوئی کہ وہ پاکستان کے دفاع کو نقصان پہنچانے کی جسارت کرے۔ بھارت نے 27فروری 2019ء کو جب پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کی تو پاک فضائیہ کے نوجوانوں نے بھارتی سورمائوں کے طیارے کو مار گرایا۔ وطن پر اپنی جانیں قربان کرنے والے یہ بہادر نوجوان اس قوم کا فخر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خصوصی عدالت نے جب سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دیا تو پوری قوم نے تفصیلی فیصلے کے پیرا 66کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی۔ اس فیصلے نے جہاں پوری قوم کے جذبات کو مجروح کیا وہی افواج پاکستان کو آزردہ کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ پیرا 66 میں لکھے گئے الفاظ سے ذاتی عناد اور بغض ٹپکتا نظر آیا، جو بذات خود انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ یقینی طور پر یہ پیرا لکھتے وقت عدالتی وقار کو پیش نظر نہیں رکھا گیا اور فیصلے میں ایسی زبان استعمال کی جس کا آئینی و قانونی اور مذہبی لحاظ سے بھی کوئی جواز نظر نہیں آتا ۔ بادی النظر میں ایسے الفاظ کا انتخاب کر کے عسکری قیادت کو زچ کرنے اورغصہ دلانے کی کوشش کی گئی لیکن فوجی ترجمان نے انتہائی تحمل ‘ بردباری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کیس کے تفصیلی فیصلے میں ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔ درحقیقت کچھ قوتیں ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کو کمزورکرکے اپنے مذموم مقاصد کی آبیاری چاہتی ہیں کیونکہ اس وقت سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ بیرونی اور کچھ اندرونی قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی جس بنا پر وہ کسی نہ کسی طرح اداروں کوایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر کے تصادم کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہیں جسے پاک فوج نے ناکام بنا دیاہے۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی ملک کے لئے بے پایاں خدمات ہیں، ان کے دور میں ملک میں معاشی استحکام آیا تھا۔ ملک میں جدید ٹیکنالوجی آئی اور نسل نو کے لئے روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوئے تھے۔ بحیثیت انسان پرویز مشرف سے بھی غلطیاں سرزد ہوئیں، عدالت انہی غلطیوں کو مدنظر رکھ کر ان کے جرم کی سزا سناتی جس میں کسی قسم کی ذاتی مخاصمت کا اظہار نہ ہوتا۔ تو ہر کوئی اسے سراہتا لیکن تفصیلی فیصلے کے پیرا 66 چونکا دینے والا ہے جس میں لاش کو تین دن تک ڈی چوک میں سرعام لٹکانے جیسے الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ حالانکہ اس بنچ میں شامل جسٹس نذراکبر نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ صاف و شفاف انکوائری کرنے میں ناکام ہوئی۔ مثالی سزا کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، جس بنا پر یہ غیر آئینی ہو گی۔ گو اس متعصبانہ سزا کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو گی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا ۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکلا نے لاش لٹکانے جیسے الفاظ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ فیصلے میں ایسی زبان استعمال کرنے سے فیصلہ مشرف کے حق میں چلا گیا ہے۔ جبکہ درجنوں سینئر وکلاء نے پیرا66 کو ذاتی رنجش اور متعصبانہ قرار دیا ہے۔ ملک بھر کی سرکردہ مذہبی جماعتوں کے سربراہان اور مفتیان عظام نے بھی مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلے کے پیرا66میں استعمال ہونے والی زبان کو خلاف شرع قرار دیا ہے۔ خود نبی کریمؐ نے بھی لاش کا مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت و احترام بخشا ہے ۔ ویسے بھی مرنے کے بعد بندے اور اس کے اللہ کا معاملہ ہے، وہ ذات کسی کو بخشنا چاہے تو وہ غفور رحیم ہے، اس لئے کسی لاش کو تین دن تک روکے رکھنا شرعی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ گو حکومت پاکستان نے خصوصی عدالت کے جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں وکلا برادری کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔ لیکن کچھ وکلا تنظیموں نے حکومتی ریفرنس دائر کرنے کے اعلان کے بعد ہڑتال کا اعلان کیا ہے جو کسی طور پر بھی ملکی مفاد میں نہیں۔ اداروں کے درمیان جب تک ہم آہنگی نہیں ہو گی تب تک ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ جس طرح پاک فوج نے بحیثیت ادارہ فیصلے پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسی طرح وکلا تنظیموں کو بھی آئین اور قانون کا ساتھ دینا چاہیے۔ اداروں کے مابین ٹکرائو کی فضا سے ملک کا نقصان ہو گا۔ اس لئے تمام ادارے اپنے اپنے طور پر ملک دشمن عناصر کے عزائم ناکام بنانے کی کوشش کریں اور ملکی استحکام کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔