ہمارے نزدیک مؤرخ اور مُورکھ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مؤرخ کسی دباؤ، جھکاؤ، تناؤ سے بے نیاز ہو کر تاریخ رقم کرتا ہے اور مُورکھ کے پیشِ نظر ہمیشہ روٹی کا لقمہ ہوتا ہے۔ مؤرخ اپنی چشمِ بینا سے حالات کی تصویر کشی کرتا ہے جب کہ مُورکھ کی نظر دنیاوی مفادات پر ہوتی ہے۔ مؤرخ عقل کو مدِ نظر رکھ کر واقعات ترتیب دیتا ہے اور مُورکھ اَکل کو ۔ مؤرخ کے دل میں خدا کا خوف جاگزیں ہوتا ہے لیکن مُورکھ کو عارضی حاکموں کی خوشنودی عزیز ہوتی ہے۔ دنیا داری کو ترجیح دینے والے کم ظرف چونکہ ہر دَور میں ہمارے معاشرے کا حصہ رہے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں تاریخ کی مَد میں لکھے ہوئے حروف کم اور اُن کی جانب اٹھتی ہوئی اُنگلیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ آج بھی ہم نے 1857 کے ابتر حالات، تحریک پاکستان کی ہر پل بدلتی صورتِ حال، 1947 کی قتل و غارت گری، پینسٹھ کی جنگ کے اسباب و واقعات یا سانحۂ مشرقی پاکستان کی سچی تصویر دیکھنی ہو تو اس کے لیے ہمیں غالب کے خطوط، جناح اقبال خط کتابت، منٹو اور انتظار حسین کے افسانوں، فکر تونسوی کی ڈائری (چھٹا دریا) قدرت اللہ شہاب کے ناولٹ (یا خدا) عبداللہ حسین، نسیم حجازی، قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور کے ناولوں، ناصر کاظمی اور فیض کی شاعری، صدیق سالک کی بائیو گرافی، مختار مسعود کے روزنامچے اور 1971ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی طالبہ اور آج کی معروف ادیبہ سلمیٰ اعوان کے ’تنہا‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ہم نے ایک زمانے میں لکھا تھا کہ قلم کا سر جھکا ہوا ہو تو حرف بنتا ہے اور قلم کار کا سر جھکا ہوا ہو تو حرف آتا ہے۔ اس مقولے کی روشنی میں آج کے قلم کاروں کی جانب نظرکرتے ہیں تو سجدہ ریز ادیبوں اور صحافیوں کی، شاعرِ مشرق کے پریوں کی مانند صحرا میں قطار اندر قطار کھڑے پھولوں سے بھی لمبی لائن دکھائی دیتی ہے، جو مختلف ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں ریٹنگ اور راطب کے چکر میں بیٹھے، زبان اور قلم سے ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہی ٹاک شوز کی بابت چند سال قبل اپنے حکیم جی نے کہا تھا: اَول ہونا چاہیے ، کچھ فَول ہونا چاہیے بدتمیزی کے لیے ماحول ہونا چاہیے آگ لفظوں سے لگائی جا تو سکتی ہے مگر آپ کا لہجہ ذرا پٹرول ہونا چاہیے آپ سروے کرا کے دیکھ لیں ، ہمارے ہاں زندگی اجیرن کر دینے والی بیماریوں میں ٹینشن، بلڈ پریشر، شوگر جیسے امراض کا تناسب سب سے زیادہ ملے گا اور ان بیماریوں کا سب سے بڑا سبب چینلوں میں پھٹکار کی طرح برستی یہی تُوتکار ہے۔ چند ٹکوں یا عارضی عہدوں کی خاطر کی جانے والی اس جھوٹی وکالت، دلالت، جو آخرت میں یقینا ذلالت کے درجے پہ فائز ہوگی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ پہلے دن ہی سے لُوٹ مار پر اُتارُو سیاست دانوں، حکمرانوں، فیصلہ سازوں کو قوم کی حالت معلوم ہونے کے باوجود مزید نھیر مچانے اور قومی سرمائے کو ادھر اُدھر منتقل کرنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔ بقول شاعر: جب سے شوگر کا بول بالا ہے زیست نمکین ہوتی جاتی ہے آپ زردار بنتے جاتے ہیں قوم مسکین ہوتی جاتی ہے اس لمحاتی فائدے کے لیے مر مٹنے والے بھول جاتے ہیں کہ قلم اور زبان تو باری تعالیٰ کی جانب سے امانت کے طور پر عطا ہونے والی نعمتیں ہیں، جن کا ذرا سا غلط استعمال بھی دنیا و آخرت میں ذلت کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں آج سب سے بڑا کاروبار یہی بن چکا ہے کہ اگر اَربوں کھربوں، ڈربوں کی کرپشن کرنی ہے تو اس کے تحفظ کے لیے ماضی میں بہ ظاہر اچھی شہرت رکھنے والے کچھ قلم کاروں، منھ ماروں، دانش وروں کی لاکھوں کروڑوں میں بولی لگا کے جیب میں رکھ لیا جائے۔ چند ٹکوں کی چمک دمک ان ’دیدہ وَ روں‘ کی آنکھیں چندھیا دیتی ہے۔ وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اپنے مشن سے اس ’ذرا سی بے وفائی‘ سے ان کی ساکھ بھی دو ٹکے کی نہیں رہتی اور ملک کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ پھر یہ ہوس ان کے ساتھ قبر پہ ڈالی جانے والی مٹی تک پیچھا کرتی ہے۔ وہ ماں باپ کے جنازے یا ان کی اولاد اُن کے جنازے پہ بھی اللہ کی مغفرت کی بجائے حکمرانوں کی شرکت کے متمنی رہتے ہیں۔ قلم کاروں میں ایک اس سے بھی بری قسم پائی جاتی ہے، جن کو حاصل وصول کچھ نہیں، وہ محض نظرِ کرم یا لقمے کی امید ہی میں نمک حلالی یا دُم نمائی کیے چلے جاتے ہیں، یعنی: کچھ امیدِ کرم میں گزری ہے کچھ امیدِ کرم میں گزرے گی نفسا نفسی اور چھینا جھپٹی کے اس دور میںاگر کوئی سچ مچ کا نمک حلال مؤرخ یا قلم کار زندہ رہ گیا تو وہ لکھے گا کہ جس دور میں آدھا ملک قدرتی آفات کی نذر ہو چکا تھا، لوگوں کے مال مویشی، گھر بار، فصلیں، نسلیں سیلاب بہا کے لے جا چکا تھا، ہمارے حکمرانوں کو بیرونی دوروں، قوانین میں ترامیم، اپنی سزاؤں کے خاتمے، اولاد کے جعلی کاروبار کے فروغ، اور آڈیو آڈیو کھیلنے سے فرصت نہ تھی۔ مؤرخ لکھے گا کہ قوم و ملک کے جو ٹھیکے دار، ذرا سی مہنگائی پہ عوام کے درد میں پھاوے ہوئے جا رہے تھے، بچوں کو وزارتیں ملنے پر وہ کڑک مرغی کی جگہ پہ قبضہ کیے بیٹھے تھے اور جن صحافیوں کی پچاس روپے کلو آٹا ہونے پر ٹِڈ پیڑ ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی، وہ آٹے کے ایک سو پچیس روپے کلو ہو جانے پر منھ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے تھے۔ مؤرخ لکھے گا کہ ایک زمانے میں مقبولیت کا ایک ہی طریقہ رائج تھا کہ پہلے چیزوں کی قیمتیں آسمان سے اگلے محلّے میں پہنچا دو اور پھر کسی سامری جادوگر کو بلا کے انھیں تھوڑا سا نیچے سرکا لو، جاہل عوام اور مستفید صحافی تالیاں بجا بجا کے آسمان سر پہ اٹھا لیں گے۔ معقول مؤرخ یہ تو ضرور لکھے گا کہ کبھی اس ملک میں بیس پچیس لوگوں کے اقتدار، اختیار کو طول دینے کی خاطر بیسپچیس کروڑ لوگوں کو افلاس و ہراس کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔ سچ کو ہرانے اور کچ کو جتانے کے اسی دور میں جن باتوں پر ایک فریق کو دھر لیا جاتا تھا، دوسرے فریق کے کلام کو ہاسا مذاق سمجھ کے نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔ مؤرخ شاید غصے میں آ کے کبھی یہ بھی لکھ ہی ڈالے کہ اِس ملک پہ ایک ایسا بھی کڑا وقت آیا تھا، جب پوری حکومتی مشینری سرکاری خرچ پہ بیرونِ ملک اس شخص سے مشاورت کرنے جاتی تھی، جس کے دماغ کی اپنے ہی ڈاکٹر کے مطابق پچانوے فیصد شریانیں بند تھیں۔ مؤرخ کو یہ تو لکھنا ہی چاہیے کہ جس ملک میں لاکھوںعامل، پیر جنّوں اور موکلوں پر قبضے کے دعوے دار تھے ، سیلاب کے وقت ان کا ایک بھی جن، ڈوبتوں کو تنکے جتنا سہارا دینے بھی نہیں پہنچا۔ مؤرخ اگر حالات کی شدت کے باوجود زندہ رہ گیا تو شاید یہ بھی لکھ ہی ڈالے کہ بعض زعیم اس لیے سیلاب زدگان کی مدد کو نہ پہنچے کہ انھیں کسی بھیدی نے بتا دیا تھا کہ فرعون بھی پنے زمانے میں پانی ہی میں غرق ہوا تھا۔