مریم نوازکے تیور بتارہے ہیں کہ نئے سال میں بہت کچھ نیا ہوسکتا ہے۔خواجہ آصف کی گرفتاری کو اغواقراردے کر مریم نواز کا کہناتھا کہ ’’یہ گرفتاری نہیں بلکہ اغوا ہے ،جس کے ذریعے ہمیں دھمکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواجہ آصف نے مجھے بتایا کہ انھیں کسی نے بلا کر کہا کہ نواز شریف کو چھوڑ دیں لیکن خواجہ آصف نے کہا کہ مَیں ہر طرح کے رد عمل کے لیے تیار ہوں، آپ نے جو کرنا ہے کر لیں۔ خواجہ آصف سے یہ بات کس نے کہی ،وہ نام ان کی امانت ہیں اور وہ ابھی اس بارے میں نہیں بتانا چاہتی ہیں‘‘خواجہ آصف کی گرفتاری سے قبل مریم نواز کا بے نظیر بھٹو کی برسی پر گڑھی خدابخش جانا ،وہاں تقریر کرنا اور پھر بے نظیر کی قبر پر پھول نچھاورکرنا،مریم نواز کی سیاست کا رُخ متعین کرتاہے۔اپنے مسلم لیگی ساتھیوں کی گرفتاری پر جس طرح کا ردِعمل مریم نواز دے رہی ہیں ۔ اس ردِعمل کو عام روّیہ نہ گردانا جائے ،یہ ایک غیر معمولی عمل ہے ،جو نئے سیاسی کلچر کی بُنت ٹھہرے گااوریہ مسلم لیگ کے ورکر اور لیڈرز کے اعتماد اور حوصلے میں اضافہ کررہا ہے۔اپنے ساتھیوں کے لیے ایساردِعمل کبھی میاں نوازشریف بھی نہیں دے پائے۔ مریم نواز کا اعتماد ، حوصلہ اور لیگی رہنمائوں کی گرفتاریوں پر تفکر ،اس ملک کے عوام کو ایک مختلف طرز کے سیاست دان سے روشناس کرواسکتا ہے۔مریم نواز کے انداز سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیاسی عمل میں عوام کے کردار اور اُن کے وجود کی اہمیت سے پوری طرح آگا ہ ہیں۔مریم نواز کا لائف سٹائل اگرچہ عوام ایسا نہیں ،مگر یہ عوام کے مسائل کا ادراک رکھتی ہیں۔اگر مریم نواز خود کو عوام کے مجموعی رُوپ میں ڈھال دیں تو پنجاب کے شہروں ،قصبوں اور دیہاتوں میں سیاست کا ڈھب ہی بدل جائے ۔مریم نواز جب سے عوام کے درمیان ہیں ،یہ مہنگالباس پہنتی ہیں،قیمتی جوتے پائوں کی زینت بناتی ہیں اور انواع واقسام کے کھانے اِن کے سامنے دھرے رہتے ہیں۔اس سار ے میں اگر سادگی آجاتی ہے اورعوام کی بے چینی کو یہ اپنی تقریروں میں معنی پہنا دیتی ہیں تو مریم نواز سیاست کے اُس مقام پر پہنچ جائیںگی ،جہاں سے اِن کو اُتارا نہیں جاسکے گا۔ عمران خان نے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جو مقبولیت حاصل کی ،وہ کسی حد تک مصنوعی ہے۔ مصنوعی اِن معنوں میں کہ آپریشن ضربِ عضب کے شروع ہونے تک ،ملک کے گلی محلوں میں آزادانہ گھومنے پھرنے کا خیال تک محال تھا۔دہشت گردی کا خوف، جِن بن کر دروازے بجاتا رہتا تھا،نائین الیون کے بعد جو نسل جوان ہورہی تھی ،اُن کے لیے کوئی تفریح نہیں تھی،سینماکلچر دَم توڑ چکا تھا ،ثقافتی تہوارسمٹ کر رہ گئے تھے،آزادی کا احساس تک مفقود تھا،وہ عمران خان کے جلسوں میں پہنچے تو اُن کو نعرے لگانے ،سیٹیاں بجانے ،کسی حد تک ناچنے کا موقع ملا،اُنہیں یہاں پہنچ کر اپنے ہونے کا احساس ہوا،ایک لحاظ سے عمران خان کے جلسے نوجوان نسل کے لیے تفریخ کا سبب بن گئے ،یہاں دہشت گردی کا خوف بھی ندارد تھا۔یوں عمران خان کی شکل میںایک ایسا سیاست دان مل گیا جو اُن کو اپنے ہونے کا احساس دلاسکتا تھا ، احساس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اُن کو نوکریاں دے یا روزگار سے ہم کنارکرے،جب عمران خان اور اُن کی ٹیم کے لوگوں نے کئی بار یہ کہا کہ ہم سرکاری نوکریاں دینے کے لیے اقتدار میں نہیں آئے تو نوجوانوں میں کسی طرح کا اُبھار اوربے چینی نے جنم نہیںلیا۔عمران خان سے جڑا رومانس بتدریج سوسائٹی میں کم ہورہا ہے لیکن یہ رومانس نوجوان نسل میں بدرجہ اُتم موجود ہے ،وجہ یہ ہے کہ رومانس پر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے چوٹ نہیں کی گئی۔یہ چو ٹ مریم نواز اچھے طریقے سے کر سکتی ہیں ۔مریم نواز کو نوجوان لڑکیاں اور خواتین بھی باآسانی ویلکم کرسکتی ہیں ۔ ،یہ ہمارے سیاسی عمل میں ایک نعمت سے کم نہیں کہ یہاں اُنیس سوستر سے دوہزار اَٹھارہ تک متعدد ایسے انتخابی حلقے ہیں ،جہاں خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں ،اگر کبھی خواتین حلقے کی سیٹ پر نمودار بھی ہوئیں تو باپ ،بھائی یا شوہر کے نااہل ہونے یا اُن کی ڈگری جعلی ہونے کی وجہ سے ۔لیکن بعض حلقوں میں الیکشن مہم کے دوران پمفلٹس پر اِن کا نام نہیں آتااور تصویر بھی نہیں چھپتی ۔زوجہ یا دُختر اِن کا محض حوالہ بنتا رہا۔مریم نواز کو چاہیے کہ وہ اپنے باپ اور چچا کے امیج سے نکلیں ،یہ عوام سے براہِ راست جڑ جائیں ۔اس ملک کی تقدیر سیاست دانوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ،سیاست دان ہی یہاں زندگی کا اعتبار قائم کرواسکتے ہیں۔ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر بیٹھے دانشور سیاست دانوں کو کرپٹ کہتے ہیں ،یہ کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں ،شاید یہ ٹھیک کہتے ہوں ،مگر معاملہ کرپشن کا نہیں ،معاملہ انہدام کا ہے۔ریاستی انہدام کرپشن سے نہیں قیادت کے فقدان سے پیداہوتا ہے۔دوہزار اَٹھارہ کے الیکشن کے بعد مریم نواز کو دوطرح کے اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت تھی ۔ اوّل:نوازشریف کے ملک سے باہر اور شہباز شریف کے حراست میں ہونے کی صورت میں لیگی رہنمائوں کا اعتماد۔ دوم:عوام کا اعتماد۔پہلا اعتماد مریم نواز حاصل کرچکی ہیں ،لیگی رہنما شہباز شریف اور میاں نواز شریف سے بھی زیادہ مریم کے ساتھ باسہولت ہیں،دوسرا اعتماد پوری طرح حاصل نہیں ہوا۔مریم نواز کو چاہیے کہ یہ سیاست دانوں پر غصہ کم کریں،اسٹیبلیشمنٹ کو آڑے ہاتھوں مت لیں۔ نظام اورعوام کی بات کریں۔اسٹیبلیشمنٹ اور مسلم لیگ ن کے مابین فاصلہ، اقتدار کے حصول سے زیادہ انڈرسٹینڈنگ کا ہے اور یہ کوئی بڑامسئلہ بھی نہیں۔اسٹیبلشمنٹ یا سیاسی جماعتیں ،سب کی بقا عوام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔عوام کو ایک طرف رکھ کر نہ تو کوئی لڑائی جیتی جاسکتی ہے اور نہ مقصد کا حصول ممکن ہے۔’’یہ ملک سب کا ہے ، عوام کے ساتھ سب کی بقا ہے‘‘مریم نواز کو یہ سبق یاد کرلینا چاہیے۔