یا اللہ! اس بات پہ مَیں تیرا کیسے اور کتنا شکر ادا کروں کہ سنا ہے، ہفتہ دس دن پہلے میرے دیس میں کسی ’یہودی ایجنٹ‘ کی حکومت تھی، جو بھارت سے کشمیر کا بھی سودا کر چکا تھا اور جس نے اپنی کسی ذاتی تسکین کی خاطر ہر چیز مہنگی کر رکھی تھی۔ اُس کے گِرد نالائق اور ملک دشمن لوگوں کا ٹولہ بھی تھا۔ بس پھر کیا تھا ملک کے چپے چپے سے غیرت مندوں اور قومی ہمدردوں کا ایک انبوہِ کثیر اُمڈ کے آیا، جن سے قوم کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ کچھ دن تو وہ مختلف دھرنوں، چرنوں اور ہوٹلوں پہ سر جوڑ کے بیٹھے ، پھر اچانک اسی جوڑ سے حکومت کا توڑ بھی میسر آ گیا، بس اس بات کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ اس حکومت کے خاتمے پر سب سے زیادہ یہود و ہنود کیوں خوش ہوئے؟ اب تو شنید ہے کہ عنانِ اقتدار مریم اورنگزیب، عابد شیر علی، راجا ریاض، مراد علی شاہ جیسے دانشوروں کے ہاتھ میں ہوگی، اس لیے ہمیں فکر مند ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ پھر بھی نجانے کیوں گزشتہ دنوں میرے قلم سے یہ شعر ٹپک پڑا: قد آوری کے باب میں اپنی مثال تھا جس آدمی کو شہر کے بونوں نے جا لیا مجھے متعدد میسج آئے کہ شعر تو اچھا ہے لیکن اب تمھیں سیاسی معاملات میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ سلیکٹڈ حکومت چلی گئی، اب انصاف کا ایسا بول بالا ہوگا کہ کوئی چِٹے دن میں بھی کالے خواب دیکھے گا تو بڑے بڑے قلم دان، آدھی رات سے قبل اُن کی تعبیر رقم کرنے کے لیے حاضر ہو جایا کریں گے۔ اب تو نمک حلال تجزیہ کار اور صحافی بڑے سے بڑے جلسے پہ ایک نظر ڈال کے بنا کیلکولیٹر، سرکار اور اخبار کو بتا دیا کریں گے کہ’ پشاور اور کراچی کے جلسے میںکل چار ہزار نفوس تھے‘ چنانچہ ہم نے ہر طرف سے مطمئن ہو کر اس طرح کے شعر کہنے شروع کر دیے: اکاسی ، بیاسی ، تراسی ، چوراسی پچاسی ، چھیاسی ، ستاسی ، اٹھاسی اس پر بھی پی ڈی ایم سے وابستہ بلکہ پیوستہ ایک دوست کا فون آیا کہ بڑے چالاک ہو ، کیا مَیں جانتا نہیں کہ پچاسی میں نواز شریف وزیرِاعلیٰ بنا تھا اور اٹھاسی میں بے نظیر وزیرِ اعظم… تم نے اس شعر میں انھی دونوں اتحادی پارٹیوں کو بالواسطہ طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ مَیں ان کی ذہانت اور اپنی اہانت پہ نہال ہو گیاکہ میرے مولا ! یہ تیری ذرہ نوازی ہے کہ تُو نے ہمیں ایسے ذہین دوستوں کے ساتھ، تیزی سے بھٹو بنتے ہوئے بلاول جیسے فطین لیڈر بھی عطا کیے جو نہ صرف پہلی نظر میں بتا دیتے ہیں کہ کتنی بارش ہو تو کتنا پانی آتا ہے بلکہ انھیں اپنی ابّا داد صلاحیت کی وجہ سے سلیکٹڈ اور الیکٹڈ کا بھی فوری پتہ چل جاتا ہے۔ اب تو ان کے وزیرِ خارجہ بننے کی خبریں بھی گرم ہیں۔ امید ہے کہ ان کے ملک سے باہر قدم رکھتے ہی ڈالر، پونڈ، دینار، ریال ایک دوسرے سے مٹک مٹک کے پوچھتے پھریں گے: کِنے کِنے جانا ایں… کبھی محض فلموں میں دکھایا جاتا تھا کہ ’’چوروں قطب‘‘ کیسے بنتے ہیں۔ اب توایسے معجزات بھی سرِ عام رونما ہونے لگے ہیں۔ گئے وقتوں کا مشاہدہ ہیکہ سرخے سبزے، ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوتے تھے۔ اب تو انہی دانشوروں کی وجہ سے بلا تفریقِ رنگ و اَصل، سبز، سرخ، زرد نہ صرف ایک دوسرے کی پنڈلیاں دبانے، جپھیاں پپیاں کرنے بلکہ لسانی رطوبت سے مساج تک کرنے کیلئے بے چَین ہیں۔ رَبِ ذوالجلال تیرا شکرکہ تُو نے ہمیں ایسی سرزمین پہ آباد رکھاکہ جہاں کبھی مہنگائی کا رونا تھا، اَب تو جمہوریت کے رکھوالوں کی نیاز مندی سے پہلے اقدار، روایات، ہمدردیوں، وفا داریوں جیسی نایاب اجناس نہایت سستے داموں دستیاب رہیں … اب سنا ہے ڈیڑھ درجن جمہوری پارٹیاںاس مہنگائی کی بچی کو ایسا سبق سکھائیں گی کہ ساری عمر منھ چھپاتی پھرے گی۔ چند دنوں میں پٹرول آدھی قیمت پہ ہر چوک چوراہے میں دستیاب ہوگا۔ لوگ اپنے اپنے شاپر، بالٹیاں، ٹب، ولٹوئیاں تیار رکھیں۔ چینی آٹا چوروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی۔ بجلی کے بل تقریباً معاف سمجھو، گھی اتنا ارزاں اور وافر ہوگا کہ اس میں ڈبونے کیلئے پانچ انگلیاں کم پڑ جائیں گی۔ سونا تو لوگ گلیوں میں اچھالتے پھریں گے۔ خور و نوش جیسی اشیا کے سوداگر ہر گلی کوچے میں اللہ رسولؐ اور آئین اصول کی روشنی میں لکھے لیبل لگا کرخدمت میں پیش پیش پھرا کریں گے۔ ربِ رحیم! تیری مہربانی کہ اب تک اس بے مثال دھرتی پر جو بے شمار، بے بس، بے گناہ لوگ، اچھے برے فیصلے کے انتظار میں مارے مارے پھرتے تھے۔ بعض میانہ رَو اُن کی آنکھوں کے سامنے پچاس روپے کے اشٹام پہ موج میلہ کرنے چلے جایا کرتے ۔کچھ دیدہ دلیر، حساب مانگنے والوں کو سرِ عام پتھر مارا کرتے۔ اب وہ زمانے نہیں رہے، اب اصلی جمہوری حکومت کے طفیل ہمارے موقر اداروں میں سب بیزاری کی جگہ، شب بیداری کی رسم چلے گی۔ ہمیں یہ بھی خبر ملی ہے کہ جہاں پہلے کبھی اہم ترین اداروں کا ریکارڈ بھسم ہو جاتا، حاملہ عورتوں کے پیٹوں میں گولیاں ماری جاتیں، لوگ قومی خزانے سے پیسے لُوٹ کے باہر بھاگ جاتے، معمولی ملازموں کے اکاؤنٹوں سے اربوں نکلتے، عام آدمی کو بر سرِ چوک کچلنے، نشے اور محبت کی جنگ میں سر اُتارنے کی رسمعام تھی۔ گاڑی خراب ہونے پر عزت لُوٹ لینے جیسے واقعات کے ثبوت اکٹھے کرنے میں عمریں گزر جاتیں، اُسے اب قصہ ماضی سمجھیے۔ اب تو ملکی قوانین میں ’ہتھیلی پہ سرسوں جمانے‘ والا تحرک آ چکا ہے۔ ہمارے دیس میں جہاںپہلے ’یہودی حکومتیں‘دینی اقدار کو پسِ پشت ڈالے ہوئے تھیں، وہاں اب گمان غالب ہے کہ مسجدوں، مدرسوں کے وارث اسلامی، قرآنی نظام کے فوری نفاذ کے فیصلے کے ساتھ فرانسیسی، ڈنمارکی، سویڈنی ایمبیسیوں کے صدر دروازے پہ لگانے کے لیے ٹرائی ٹرائی سرکل کے اصلی تے وڈے تالے بھی خرید چکے ہوں گے۔ اس بات کا بھی قوی اِمکان ہے کہ ان ملکوں کے سفیروں کو اَب تک پیدل گھروں کو روانہ کر دیا گیا ہوگا۔ پھر جہاں تک کشمیر کا معاملہ ہے، وہ تو اب حل ہی سمجھو۔ موجودہ حکومت کے سیانے بتاتے تھے کہ پچھلی حکومت بزدل تھی، ورنہ پانچ اگست والے انتہائی اقدام کے بعد تو بھارت پر حملہ بنتا تھا۔ اب تو غیرت مند اور بہادر سپوت آ گئے ہیں،اب نہ صرف کشمیر کا سودا فوری کینسل ہوگا بلکہ نریندر مُودی تھر تھر کانپتا ہوا اچانک کسی دن شریف فیملی کے کسی لاڈلے بچے کی سالگرہ کے بہانے جاتی اُمرہ آ نکلے گا اور تحفے کی آڑ میں کشمیر کی چابیاں چپکے سیکسی کے پرس میں ڈال کر چلتا بنے گا، بصورتِ دیگر وہ ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم کے غصے سے واقف ہی ہے، جو اس کو معروف ایرانی پہلوان رُستمِ زماں کی مانند دھمکی آمیز پیغام بھیجے گا، بقول فردوسی: اگر جز بکامِ من آید جواب من و گرز و میدان و افراسیاب (اگر میری خواہش کے مطابق جواب نہ آیا تو (اس وقت سے ڈرو جب) مَیں اپنے گرز کے ساتھ میدانِ جنگ میں افراسیاب کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔)