معزز قارئین!۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے 26 اور 27 رمضان شریف 1440ھ (یکم / 2 جون 2019ء ) کی رات ، شب ِ قدر / لیلۃ اُلقدر ، ہزاروں مہینوں سے بہتر برکتوں والی رات اپنے ،اپنے انداز میں عبادت میں گزاری ہوگی ۔ اُن خواتین و حضرات نے 26 ،27 رمضان شریف 1366 ھ ،14 اگست 1947 ء کو بھی یاد کِیا ہوگا جن کے بزرگوں نے ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے پرچم تلے قائداعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں اسلامیانِ ہند کی جدوجہد کو عملی شکل دینے کے لئے مالی اور جانی قربانیاں دِی تھیں۔ معزز قارئین!۔27/26 رمضان 1323ھ (15/ 16دسمبر1905ئ) میرے دادا جی رانا عبداُلرحیم چوہان کا سِکھوں کی ریاست نابھہ ؔمیں انتقال ہُوا تھا اور میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کا 26/27 رمضان20 14ھ (14/15 جنوری 1999ئ) کو لاہور میں وفات پا گئے تھے ۔ میرے والد صاحب ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے "National Guards" کو دہشت گرد ہندوئوں اور سِکھوں سے لڑنے کے لئے ’’ لٹھ بازی‘‘ سِکھایا کرتے تھے ۔سِکھ ریاستوں ، نابھہ اور پٹیالہ اور ضلع امرتسر میں ہمارے خاندان کے 26 افراد بھی سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔ مجھے زندگی میں جو کچھ ملا اپنے والد صاحب کی دُعائوں سے ہی ملا ۔ حضرت داتا گنج بخش سیّد علی ہجویری ؒنے اپنی تصنیف ’’ کشف اُلاسرار ‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان مشکلات کا شکار ہو تو ، وہ اپنے والد صاحب سے درخواست کرے کہ ’’ ابا جی !۔ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں !‘‘اور اگر والد صاحب حیات نہ ہوں تو، اُن کی قبر پر جا کر وہ شخص خود اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے کہ ’’ یا اللہ !۔ میرے والد صاحب کے صدقے آپ میری مشکلات دُور کردیں!‘‘۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان پاک، پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا ، جہاں میرے والد صاحب کے ذریعے تحریکِ پاکستان کے کئی گولڈ میڈلسٹ کارکنوں سے تعارف ہُوا۔ اُن میں سے قاضی مرید احمد بھی تھے ۔ قاضی صاحب نے 1962ء میں میرا مولانا عبداُلستار خان نیازی سے تعارف کرایا۔پھر میری مولانا صاحب سے اُن کی وفات 2 مئی 2001ء تک نیاز مندی رہی (اب بھی ہے ) ۔ ’’میرے بزرگ اساتذہ !‘‘ معزز قارئین!۔ سرگودھا میں میرے والد کی کتابوں کی دُکان تھی ۔ میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ 1956ء میں مَیں نے میٹرک کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو ، لائل پور ( فیصل آباد) کے ڈیلی ’’بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہُوئی۔ مَیں 1960ء میں اردو اور پنجابی کا باقاعدہ شاعر ہوگیااور مسلک صحافت اختیار کرلِیا۔ دسمبر 1964 ء میں میری ایک غزل ماہنامہ ’’ ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہُوئی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران مَیں نے دو ملی ترانے لکھے ۔ ایک ترانہ ’’محکمہ تعلقاتِ عامہ مغربی پاکستان ‘‘ کی شائع کردہ ملی نغموں کی ضخیم کتاب میںشائع ہُوا اور دوسرا ریڈیو پاکستان سے نشر ہُوا۔ جنوری 1999ء میں انفارمیشن گروپ میں میرے محسنِ اوّل ؔ سیّد انور محمود "Pakistan Broadcasting Corporation" کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اُنہوں نے کئی شاعروں کے ترانوں کو نئے سرے سے ریکارڈ کروایا۔ میرا ترانہ پٹیالہ گھرانہ کے جناب حامد علی خان نے گایا ۔ معزز قارئین!۔ 1969ء میں مَیں سرگودھا سے لاہور شفٹ ہوگیا تھا ۔ 1980ء کے اوائل میں میرے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز ’’نائب رسول فی الہند‘‘ حضرت خواجہ مُعین اُلدّین چشتی اجمیریؒ میرے خواب میں ،میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو ،وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکت سے میرے لئے ،مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے ۔ ستمبر 1983ء میں مَیں دلدل میں پھنس گیا تھا کہ اچانک میرے مُنہ سے یا علی ؑ کا نعرہ بلند ہُوا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دِیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے بتایا کہ ’’تم پر مولا علی کا سایہ شفقت ہے‘‘۔ ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ یہ میرا حاصل ِزندگی تھا / ہے ۔اُن دِنوں مَیں ’’ نوائے وقت‘‘ میں کالم لکھتا تھا اور برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف ڈپٹی ایڈیٹر تھے۔مَیں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ’’ اِس کا کچھ نہ کچھ ثواب تو، جناب مجید نظامی اور برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف کو بھی یقینا ملا ہوگا۔ 1977ء سے میرے دوست سیکرٹری جنرل ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ‘‘ برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر مَیں نے ملی ترانہ لکھا نظریاتی سمر سکول کے میوزک ٹیچر جناب آصف مجید نے کمپوز کِیا اور جب جسے 20فروری 2014ء کو ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ ’’نظریہ پاکستان کانفرنس‘‘ میں "The Causeway School" کے طلبہ و طالبات نے مل کر گایا تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا پھر مجھے جنابِ مجید نظامی نے ’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ معزز قارئین!۔ 1996ء سے جنوری 2016ء تک میری تین دوستوں سیّد رضا کاظمی ، سیّد قمر زیدی اور سیّد عباس کاظمی کی وساطت سے میری اتحاد بین اُلمسلمین کے علمبردار اور ’’تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ‘‘ کے سربراہ آغا حامد علی شاہ صاحب موسوی سے تین ملاقاتیں ہُوئی ہیں۔ اِس لئے کہ میرے والد صاحب نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ’’ درویشوں کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے ‘‘ ۔نومبر 2011ء میں میرے دو لہوری دوست سیّد یوسف جعفری اور سیّد شاہد رشید میرے پاس بیٹھے تھے ۔ جعفری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ اثر چوہان بھائی !۔ آپ جانتے ہیں کہ ’’ معرکہ کربلا میں کچھ براہمن بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں یزیدی فوجیوں سے لڑنے کے لئے گئے تھے ؟‘‘۔ مَیں نے کہا جی ہاں!۔ یہی تو مجھے گِلہ ہے کہ امام حسین ؑ کی حمایت میں یزیدی فوجیوں سے لڑنے کے لئے ہندوستان (پنجاب) سے کوئی راجپوت کیوں نہیں گیا؟۔ پھر مَیں نے دسمبر 2011ء کے اپنے پنجابی جریدہ ’’ چانن ‘‘ لہور میں ’’ جے کربل وِچ مَیں وِی ہوندا ‘‘ کے عنوان سے منقبت شائع کی اور جب 30 اپریل 2017ء حضرت امام حسین ؑ کا یوم پیدائش تھا ۔ اُسی روز مَیں نے اپنے کالم میں اپنی نظم یہ دو بند شائع کئے کہ … تیرے ، غُلاماں نال ، کھلوندا پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر سوندا جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا …O… نذرانہ دیندا ، جان تَے تن دا غازی عباسؑ دا ، بازُو بَن دا حُر دے ، سجّے ہتّھ ، کھلوندا جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا تو مجھے برادرم سیّد عباس کاظمی نے فون پر بتایا کہ ’’ آغا جی کا اپنے تمام رفقاء کے لئے یہی فرمان ہے کہ آج سے اثر چوہان صاحب کو حسینی راجپوت کہا جائے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ 27 رمضان اُلمبارک 1435ھ (26 جولائی 2014ئ) کوجناب مجید نظامی کا انتقال ہُوا اُس کے بعد مَیں نے اُن کے ایصال ثواب کے لئے بھی قرآن خوانی اور دُعائوں کا سلسلہ شروع کردِیا ہے ۔ 27 رمضان اُلمبارک (2 جون 2019ء کو) مَیں اپنے دو بھائیوں شوکت علی چوہان ، محمد علی چوہان ، ایک بھتیجے قاسم علی چوہان اور شوکت علی چوہان کے پوتے حمزہ حیدر کو لے کر اپنے والدین ، بڑی بیگم اختر بانو چوہان ، اُن کے والدین مرزا امیر بیگ اور بیگم مرزا امیر بیگ کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے بعد جنابِ مجید نظامی کی قبر پر بھی حاضری دی۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ … مرنے والے مرتے ہیں لیکن، فنا ہوتے نہیں! یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں!