بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پرمسلط لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ میرواعظ عمرفاروق نے خود ساختہ خانہ نظر بندی اختیار کر رکھی ہے۔ سنہاکاکہنا تھا کہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ میرواعظ کسی بھی جگہ جانے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ہم نے میر واعظ عمر فاروق کو سکیورٹی دے رکھی ہے ۔بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پرمسلط لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اس دعوے کے بعد انڈین میڈیا نے میرواعظ عمرفاروق کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جس کا مقصد میر واعظ کی مقبولیت کونقصان پہنچانا تھا۔انڈین میڈیا بار بار کہتا رہا کہ میرواعظ مکمل طور پر آزاد ہیں البتہ وہ خودساختہ نظری بندی اختیارکیے ہوئے ہیں اس لئے جامع مسجد نہیں جا رہے تاکہ لوگ انہیں مظلوم سمجھیں۔ بھارتی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے بیان اوربھارتی میڈیا کے زہرناک پروپیگنڈے کے بعد میر واعظ عمر فاروق نے26اگست 2022ء کو سرینگر کی جامع مسجد میں نمازجمعہ ادا کرنے کا اعلان کیا جس پر جامع مسجدکی انتظامیہ نے میر واعظ کی جامع مسجد آمد اور ان کے خطاب کے لیے تیاریوںکوحتمی شکل دی جبکہ عوام الناس انھیں دیکھنے اور سننے کے لیے بے صبری سے انتظار میں تھے ۔لیکن بھارتی گورنر منوج سنہا کے جھوٹ اور بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈے کی ہانڈی اس وقت پیچ چوراہے پھوٹ گئی جب تین برسوں سے گھر میں نظر بند میر واعظ عمر فاروق نے اپنے گھر واقع نگین باغ سری نگر سے نکلنے اورجامع مسجد سرینگر جانے کی کوشش کی اور انھیں گھر کے دوازے پر ہی روک دیاگیا۔سری نگرکی تاریخی جامع مسجدکو تحریک آزادی کشمیر کے ایک بڑے پلیٹ فارم کی حیثیت حاصل ہے اور ہر جمعہ ہزاروں فرزندان توحید یہاں جمعہ کی نماز کی ادئیگی کے بعد آزادی کے حق میں اوربھارتی استبدادکے خلاف صدا بلند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 4اگست2019ء کومیر واعظ عمر فاروق کوگھر میں نظر بند کررکھا ہے۔ میرواعظ عمر فاروق تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی پلیٹ فارم حریت کانفرنس کے ایک قدآورلیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں ایک ممتاز مذہبی گھرانے’’میرواعظ خاندان ‘‘کے چشم وچراغ ہیں۔ بھارتی آئین کے کھوکھلے آرٹیکل370 اے اور35 کی منسوخی سے صرف ایک دن قبل یعنی سرینگر کی جامع مسجد کی انتظامیہ انجمن اوقاف جامع مسجد بار بار صدا بلند کرتی رہی ہے کہ میر واعظ محمد عمر فاروق کو جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی جائے لیکن کہیں اس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ میر واعظ عمر فاروق کے والد میر واعظ مولوی محمد فاروق کی شہادت کے بعد عمر فاروق میرو اعظ بنے اور تب سے وہ جامع مسجد سری نگر میںجمعہ کے روزخطاب کرتے چلے آ رہے تھے۔ میر واعظ کے خاندان کی نامور شخصیات قدیم زمانے سے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعے کی نماز پڑھاتے چلے آ رہی ہیں۔ 1947ء کے بعد میر واعظ خاندان کوکشمیر میں پاکستانی نمائندگان کی حیثیت حاصل رہی ہے کیونکہ اس خاندان کی ایک عظیم شخصیت میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ نے پاکستان کی محبت میں سری نگر سے راولپنڈی کی طرف ہجرت کی اورپھر یہیں وفات پائی۔ انہوں سرزمین کشمیر پر پاکستان دشمن اورغدار ملت شیخ عبداللہ کے ساتھ چلنے سے صاف انکار کیا۔ کشمیرکا یہ وہ دورتھاکہ جب ارض کشمیر پرہندو ڈوگرہ کی حکومت قائم تھی اوراس عرصے کے دوران برصغیر تقسیم ہوا،اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں نے پہلے ہندوڈوگرہ کے استبدادکے خلاف صدا بلند کی پھر پاکستان کے قیام کے بعد ارض کشمیرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں آوازبلند کی ۔ریڈنگ روم کے بانی ممبر شیخ محمد عبداللہ نے جب ملازمت کو خیرباد کہ کر سیاست میں قدم رکھا تو انہیں عوام میں متعارف کروانے میں میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ اور ان کے خانوادے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 21 جون سال1931ء کو سری نگر کے خانقاہ معلیٰ جسے کشمیر میں اسلام پھیلنے کی کوکھ کہا جاتا ہے میں ہونے والے جس جلسہ عام میں مہاراجہ کو مطالبات پیش کرنے کیلئے مسلمانوں کا ایک نمائندہ وفد تشکیل دیا گیا تھا، میر واعظ مولانا یوسف شاہ اس وفد میں شامل تھے۔13 جولائی سال1931ء کے المناک سانحہ کے بعد پیش آمدہ حالات میں میر واعظ مولانا یوسف شاہ نے مسلمانوں کی بھر پور راہنمائی کی۔ سال1932ء میں جب آل جموںوکشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ لیکن تھوڑے عرصہ بعد جب شیخ عبداللہ کا منافقانہ کردارطشت از بام ہونے لگا تومیرواعظ محمد یوسف شاہ نے شیخ عبداللہ سے دوری اختیار کرلی۔ سال1939ء میں جب شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا تو میر واعظ یوسف شاہ شیخ عبداللہ کے سیاسی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے مسلم کانفرنس کے احیاء کی کوششوں میںشامل ہو گئے ۔ سال 1942ء میں جب مسلم کانفرنس کا با قاعدہ احیاء مکمل میں آیا تو آپ اس جماعت میں شامل ہو کر ایک بار پھر سیاست میں بھر پور کردار ادا کرنے لگے۔ میر واعظ یوسف شاہ اورغدار ملت شیخ عبداللہ کے کارکن ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے لگے۔میرواعظ مولانا یوسف شاہ مسلم کانفرنس کی کشمیر شاخ کے صدر بن گئے ۔ جبکہ چوہدری حمید اللہ کی قیادت میں ایک دوسرا دھڑا جموں میں قائم ہو گیا۔ 1947ء میں آپ قائد اعظم محمدعلی جناح اور مسلم لیگی راہنماؤں سے ملنے کے لئے پاکستان آ ئے اورپھر یہیں کے ہوکر رہ گئے کیونکہ شیخ عبداللہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد اب ان کا وطن واپس جانا نا ممکن تھا۔ کشمیر کا میر واعظ خاندان مقبوضہ وادی کشمیر بالخصوص سری نگر کے ڈائون ٹائون یا پرانے شہرسری نگر میں غیر معمولی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اس خاندان نے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی دینی، روحانی اور فکری راہنمائی کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ہیں۔ میر واعظ رسول شاہ نے 1897ء میں سرینگر میں انجمن نصرت الاسلام کی بنیاد رکھی ۔ اس انجمن نے سری نگر میں اسلامیہ اورینٹل کالج کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا جسے کشمیرکے پہلے دینی مدرسے کا اعزاز حاصل ہے ۔یہاں سے فارغ التحصیل طلباء مولوی فاضل سند یافتہ کہلاتے ہیں۔ تاہم اب یہ مدرسہ عدم توجہی کے باعث روبہ زوال ہے ۔