1992 ء دسمبر کے سرد دن تھے جب امریکی جرنیل میک کرسٹل نے افغانستان کے سرحدی صوبے پکتیا میں ’’بے ضرر‘‘ ہوجانے والے روسی ٹینکوں کے بیرلوںسے جھولتے افغان بچوں کو دیکھا اور حیران ہوگیا کہ یہ کیسی نڈر اور بے خوف قوم ہے ۔ پکتیا میں بہت طویل غاریں ہیں، یہ اتنی لمبی ہیں کہ ان کے اک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹارچ کی روشنی تھک کر گر جاتی ،یہ اسلحہ گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی تھیں جنہیں بعد میںافغان مجاہد بیت الخلاء کے طور پر استعمال کرنے لگے پورے افغانستان میں جگہ جگہ روس کا جنگی کاٹھ کباڑ اسی طرح بکھرا ہوا دکھائی دیتا تھا اور اب بھی موجود ہے ،تب افغانستان کی سرحدیںسب کے لئے کھلی ہوئی تھیں ،کیا عرب اور کیا ترک ،کیا بنگالی اور کیا الجزائری ،ہر رنگ نسل کا بندہ کلاشن کوف لٹکائے افغانستان میں مل جاتا تھا ،بڑے حصے پر افغان مجاہدین کے مختلف دھڑوں کا قبضہ تھا جو آپس میں برسرپیکار رہتے تھے پاکستان نے انہیں جوڑنے کی کئی کوششیں کیں لیکن اغیار کی انہیں توڑنے کی کوششیں زیادہ کامیاب رہیں جہاد کے ثمرات آپس میں خون خرابے کی صورت میں ضائع ہوتے رہے۔ حکمت یار کی حکمت دھری کی دھری رہ گئی،جلال الدین حقانی کاجلال بھی پھیکا پڑ گیا۔برہان الدین ربانی کی برہانیت بھی کسی کو قائل کرنے کے لئے ناکافی رہی ۔مولوی یونس خالص میںبھی ملاوٹ کی آمیزش محسوس ہونے لگی،خانہ کعبہ میں ہونے والا معاہدہ بھی دیرپا نہ رہادنیا جو بھی کہے میں سمجھتا ہوں کہ افغان مجاہدین کو اسی عہد شکنی کی سزا ملی۔ آپس کی مارکٹائی سے تنگ ایک دینی مدرسے کا طالب علم ملامحمد عمر 1994ء میں اس خانہ جنگی کے خلاف اٹھا اس نے مدارس کے ساتھیوں کوساتھ ملایا اوردیگر جہادی تنظیموں کے عام مجاہدین سے رابطے کرنے لگا لوگ اس خانہ جنگی سے عاجز آچکے تھے۔ طالبان افغانستان پر طوفانی رفتار سے چھاتے چلے گئے سال دو سال میں یہ سیاہ پگڑیوںاور سفید لباس والے افغانستان کے بڑے حصے پر حاکم ہوگئے ،1995ء سے 2001ء تک طالبان کا دور افغانستان میں امن وامان کا بہترین وقت رہا۔انہوں نے شاہراہیں محفوظ بنائیں ،فوری انصاف کو یقینی بنایا اورپوست کی کاشت ختم کردی ، ان بڑے اقدامات کے باوجود بے سمت خارجہ پالیسی ، سخت بے لچک رویہ ، وژن کی کمزوری ، حکمت سے عاری پالیسیوں نے افغانستان کو دنیا کی نظر میں دہشت گردی کی نرسری بنائے رکھا، 2001ء میں امریکہ میں ورلڈٹریڈ ٹاور پر حملے کے بعد امریکہ پوری قوت سے افغانستان پر چڑھ دوڑا کہ یہیں القاعدہ کا ہیڈکوارٹر تھا،امریکہ کو اپنی بہترین ٹیکنالوجی اور میزائلوں اور جدید لڑاکا طیاروں پر ناز تھا اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے بارود سے کچھ ہی عرصے میں افغانستان کے پہاڑوں کو سرمہ بنا دے گاسب کچھ مٹا دے گایہی اسکی بھول تھی طالبان سے حکومت چلی گئی لیکن ان کی سرشت میںشامل غیر کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنے کی خوکہاں جاتی،وہ ٹوٹی پھوٹی کلاشن کوفوں اور مانگے تانگے کے اسلحے کے ساتھ گوریلا جنگ لڑنے لگے ان کا سب سے خوفناک ہتھیار خودکش یا فدائی حملہ تھا،اس کارروائی کے لئے سراچہ کار(اسٹیٹ کار) استعمال کی جاتی جسے کے پچھلے حصے کو بارود سے بھر دیا جاتا ،فدائی بارودی جیکٹ پہن کر مسکراتے ہوئے ساتھیوں سے یہ کہہ کر الوداع ہوتا کہ میں تم سب کا جنت میں منتظر ہوں گا اور شکار کی طرف بڑھ جاتا،مخبر پہلے ہی اتحادی امریکی فوجی کانوائے کی آمد کی اطلاع کر چکے ہوتے یہ شیر دل تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا ہوا کانوائے میں گھستا اور خود کو اڑا دیتا ،دنیا بھرمیں دہشت گردی کے واقعات پر نظر رکھنے والے جرمن ادارے statisaکے مطابق طالبان نے 2007ء سے 2018ء تک19,928 کارروائیاں کیں اجس کے نتیجے میں 3585اتحادی فوجیوں کے تابوت اپنے اپنے ممالک روانہ ہوئے، 2441تابوت توواشنگٹن پہنچے،اس سارے عرصے میں 2010ء کا سال سب سے بھیانک رہا جس میں 710اتحادی فوجی جان سے گئے ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 498تھی اسی برس امریکی افواج کے کمانڈرجنرل میک کرسٹل نے واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ طالبان سے امن کی بات چیت کی جائے ورنہ آنے والے برسوں میں وہ افغانستان کو جہنم بنا دیں گے میک کرسٹل کو اس سچ پر برطرف کر دیا گیا لیکن آج واشنگٹن کو اسی بوڑھے جرنیل کے مشورے پر عمل کرنا پڑاہے اور اس پاکستان کی مدد سے کرنا پڑا جسے کبھی تورابورا بنانے کی دھمکی دی گئی تھی،قطر مذاکرات میں پاکستان کا کردار ختم کر دیا جاتا تو دستخط کی نوبت ہی نہ آتی ،یہ پاکستان ہی تھا جس نے طالبان کوجنگ بندی پر آمادہ کئے رکھا اور انہیں سمجھایاکہ وہ مذاکرات کی میز پر اپنے مخالفین کے ساتھ بیٹھیں اب انہیں ’’کابل ‘‘ کی موجودگی پر اعتراض ہے نہ وہ سول سوسائٹی کی خواتین کی موجودگی پر معترض ہیں۔طالبان کو اس امر پر رضامند کرنے کے لئے موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے ٖڈائریکٹرجنرل،جنرل فیض حمید اورکراچی پشاور کی بعض دینی شخصیات کابڑا اہم کردار ہے جو گزشتہ کئی ماہ سے آن بورڈ رہے ،معاہدہ ہوچکا ہے بس ڈر یہ ہے کہ اس معاہدے سے خائف دو پڑوسی ممالک کچھ گڑبڑ نہ کر بیٹھیں ،بھارت افغانستان میں 139ارب روپے لگا چکا ہے ،اس کے لئے کابل سے پاکستان کی طویل سرحد گرم رکھنااور پاکستان پر دباؤ ڈالنا کچھ زیادہ مشکل نہ تھالیکن مستقبل میں مشکل ہوگاایران نے بھی یہ معاہدہ مسترد کیا ہے ۔کابل حکومت پر اس وقت کئی جانب سے دباؤ ہوگا یقینی طور پر افغان صدر اشرف غنی اور بہت سارے راہنماؤں کا سیاسی مستقبل تاریکیوں کی نذر ہونے والا ہے۔ جسے بچانے کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں ،معاہدے کے چوبیس گھنٹے بعد ہی افغان صدر پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے یوٹرن لے چکے ہیں آنے والے وقت میں کون کتنے یو ٹرن لے گا اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ،افغانستان میں بہت خون بہہ چکا ہے اسکے پڑوسی پاکستان نے بھی اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے ،اس خطے کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ اچھے موڈ میں خودکش اور ڈارون حملوں کی شہ سرخیوں سے پاک اخبارچائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پڑھیں جیسے اس وقت جنرل میک کرسٹل خوشگوار موڈ میںآرام کرسی پر جھولتے ہوئے ٹیلی وژن دیکھ رہا ہے۔