کئی روز کے ابر آلود موسم اور دو روز کی مسلسل رم جھم کے بعد جمعہ کے دن کھلی چمکدار دھوپ نکلی ہے۔گھاس،سڑک اور گھروں کی دیواروں پہ چھائی گرم سکون آور ، حیات بخش دھوپ۔بچوں کی ہنسی جیسی بے ساختہ اور روشن۔یہ دھوپ ہی تو ہے جو زمین میں اندھیروں میں دھنسے ڈرے سہمے بیج کو پیار محبت سے پھسلا کر باہر آنے اور دنیا کا سامنا کرنے پہ مجبور کردیتی ہے۔ راز آشنا خدا جانے دھوپ اور بیج میں کیا باتیں ہوتی ہونگی ۔کیسی کیسی چکنی چپڑی باتیں ۔ مٹی اس محبت بھری سازش میں یقینا شریک ہوتی ہوگی ورنہ لاکھوں بیج وہیں کملائے نہ رہ جائیں اور خدائے لم یزل کی بسائی یہ دنیا بے کاہ و گُل نہ ہوجائے۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ روز ازل سے بیج پھوٹتے، پھول کھلتے اور کھلیان اگتے آئے ہیں اوردنیا انسان کی تمام تر خلاف فطرت کارروائیوں کے باوجود اجڑنے نہیں پائی۔ مٹی اور دھوپ کی سازش کامیابی سے جاری ہے۔ننھے سے بیج کو دھوپ اکساتی اور مٹی راستہ دیتی آئی ہے تاکہ دنیا ہری بھری رہے اور انسان اس سے جمالیاتی اور بدنی ضرورتیں پوری کرے۔کتنا خوبصورت تسلسل ہے جسے کوئی توڑ نہیں پاتاکہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی۔بچے پیدا ہوجائیں اور خالق نے ان کی عمر رکھی ہو تو انہیں بڑا ہونے سے کون روک سکتا ہے۔بیج پھوٹ پڑے اور دہقان ازل کو گوارا ہو تو اسے پھلنے پھولنے سے کون روک سکتا ہے۔ہاں مگر جنگیں ہوتی ہیں اور بچے یعنی فطرت کے معصوم پیغامات جووہ دنیا کو بھیجتی ہے، سنگ دلی سے مٹا دیے جاتے ہیں۔کھلیان خاکستر کردیے جاتے ہیں اور پرندے ہجرت پہ مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اس کے باوجود دنیا میں جہاں انسانی خود غرضی نے اپنا جال نہیں پھینکا، فطرت اپنی تمام تر خود سری،خوبصورتی اور بے پروائی کے ساتھ سینہ تان کر کھڑی ہے اور انسان اسے دیکھ کر مبہوت ہوجاتا ہے۔گاہے اپنی خود غرضی پہ شرمندہ گاہے اسی پہ نازاں۔ کتنی ہی پیاری باتیں ہیں جو ہم ایک دوسرے سے کر سکتے ہیں لیکن وہ سیاست جیسے بھدے موضوع کی نذر ہوجاتی ہیں۔وہ بھی یقینا اہم موضوع ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ ایک سونے جیسا چمکدار دن اس کی نذر کردیا جائے۔کھڑکی سے باہر پھیلے منظر سے نظریں چرا لی جائیں۔بچوں کی چہچہاتی ہنسی کانوں میں گھستی چلی جاتی ہے اور وہ ہمارے تمام تر رعب و دبدے کے باوجود بڑی سہولت سے ہماری گود میں آن بیٹھتے ہیں۔پرندے ہمارے لان میں کس حق سے اڑتے پھرتے ہیں جوہم نے ان کے لئے نہیں بنائے تھے۔ہمارے معمولات سے پرے ان کے اپنے معمولات ہیں جو کبھی فطرت کی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔ انہیں روز صبح دم جاگنا اور شور مچانا ہی ہے۔ انہیں قطعی پروا نہیں کہ منہ اندھیرے جس عبقری کی کھڑکی پہ وہ جی جان سے چہک رہے ہیں ، وہ غم ہائے سیاست دوراں کے طفیل یا دانش و دلیل کی گھتیاں سلجھاتے رات بھر سویا نہیں ہے۔یہ پروا روز وقت پہ نمودار ہونے والے سورج کو بھی نہیں۔درحقیقت فطرت کو ہماری چنداں پروا نہیں۔سو کبھی کبھی تو اے اہل دانش و خرد۔تھوڑی سی دیوانگی تھوڑی سی بے خودی اور تھوڑی سبک گفتاری روا ہے کہ نہیں۔آخر اب تک تم نے اس بے ڈھب دنیا کا کیا بگاڑ لیا ہے جو ایک دن دانش نہ بھگار لو گے تو کوئی کسر رہ جائے گی۔یوں بھی یہاں جو کچھ ہو رہا ہے میری اور تمہاری مرضی سے نہیں ہورہا۔کوئی ہم سے پوچھتا بھی نہیں اور ہوا چلا جاتا ہے۔تو آئو اس ہوئے چلے جانے کو انجوائے کریں اور اسے ہونے دیں جسے یوں بھی ہوئے چلے جانا ہے۔یہ کائنات میرے اور تمہارے مشوروں کی محتاج نہیں ہے۔میں اور تم اپنی تمام تر دانش سمیت دو کوڑی کی مٹی میں مل جائیں گے اور دو ٹکے کے آوارہ لوگ جنہیں ہم زندگی میں منہ نہ لگاتے تھے، ہماری قبر پہ بیٹھے تاش کھیلتے اور چرس پیتے رہیں گے۔ہماری کل دانش کی اوقات یہی ہے۔ہم جو خود کو بے بدل اور یکے از قسم ناقابل تلافی موجودات سمجھتے ہیں ہمیں جاننا چاہئے کہ دنیا ہم سے کہیں بہتر اور قابل لوگوں سے بھری پڑی ہے اور انہیں کوئی نہیں جانتا۔یہ جو چار لوگوں میں ہماری کچھ عزت ہے اور ہمارے لکھے چند الفاظ کچھ دھیان سے پڑھے جاتے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی خاص دخل نہیں ہے۔یہ اس مالک کی عطا ہے جو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ہمارے سروں میں جو ہوا بھری ہے اس کے بغیر خلا میں کائناتوں کا ایک سلسلہ ہے جو قائم ہے اور پھل پھول رہا ہے کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۔ ہمیں لیکن سوچنے سمجھنے کی فرصت ہے نہ یاراکہ انسان بالآخر اپنے اعمال کے ساتھ تنہا رہ جاتا ہے ۔ ہمدم دیرینہ کو قصہ پارینہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ وہ جو کل تک دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے آج کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔کل جنہیں دیکھے بغیر نیند نہ آتی تھی آج ہم ان کے بغیر زندہ ہی نہیں ہٹے کٹے اور خوش بھی ہیں۔کوئی اتنا ضروری ہرگز نہیں ہوتا کہ زندگی اپنی رفتار بھول کراس کا تماشہ دیکھنے کھڑی ہوجائے۔ وقت زبردست ہے اور اسے لگام کی طرح تھامے رکھنے والی ذات و ہ ہے جس سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اس نے ایسا اور ایسا کیوں کیا۔بہتر تو یہی ہوگا کہ ہم جو اپنے لیپ ٹاپ گود میں رکھے عراق ایران شام اور لبنان کی ہانکتے ہوئے خود کو کوئی برتر شے سمجھ بیٹھے ہیں ذرا ہوش کریں۔ہماری اکثریت بڑی خود پسند و خود رائے ہے۔ کیا ہمیں یقین آئے گا کہ گلی کے مڈل کلاس لونڈے ہماری پیٹھ پیچھے ہمارا کیسا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ پھر کہاں کی دانشوری اور کیسا زعم ہنر۔ہم ان کی ایک جگت کی مار ہیں۔انہیں علم ہے کہ آنے والا وقت ان کا ہے۔ ان کی تمام تر بیہودگیوں کے باوجود یہی قانون فطرت ہے۔یہ وقت کے شہسوار ہیں ۔ ایسا لکھا ہوا ہے کہ ہم چاہے ہٹلر ہوں،مسولینی ہوں، مارکس ہوں ، ہیگل ہوں یا فرائڈ،یہ ہمیںکچلتے ہوئے گزر جائیں گے ۔ اس میں برا ماننے والی کوئی بات نہیں۔ ہاں لیکن تم برا مانوگے کیونکہ تم نے خود کو بے بدل سمجھ لیا ہے اور تمہارے ساتھ میں نے بھی۔ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ ثقیل باتیں،موٹی اصطلاحات اور بھاری بھرکم دلائل ہمیںہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ہم امر ہوجائیں گے یا کم سے کم یاد رکھے جائیں گے۔ہلکی پھلکی پیاری باتیں ہمارے مقام و مرتبے کے خلاف ہیں۔قیامت ہی تو آجائے گی اگر ہم نے کسی کم اہم موضوع کو چھیڑ دیا۔ ہم جو معاشرے کے نباض ہی نہیں جراح بھی ہیں کیسے عام سی بات کریں۔ہمارا قیمتی وقت ان باتوں کے لئے نہیں ہے۔ہمیں تو بھاری بھرکم مباحث ہی زیبا ہیں جن سے ہمارے تبحر علمی کا اظہار ہو اور ہماری پھولی ہوئی انا کو تسکین ملے۔ہم بھول بیٹھے ہیں کہ فطرت سے زیادہ زور آور کون ہے لیکن وہ کیسے نازک اور سبک اشارے کرتی ہے۔ جیسے آج کئی روز کی بارش کی بعد زرد چمکیلی دھوپ نکلی ہے اور سرد ہوا کی کاٹ چپکے سے نرمی میں ڈھل گئی ہے۔