حضرت لقمان کوتاہ قامت کے ایک حبشی غلام تھے لیکن حکمت و دانائی اور تقویٰ میں ان کا قد کاٹھ غیرمعمولی تھاعرب کے شعراامراؤ القیس،لبید،طرفہ کے کلام میں بھی حضرت لقمان کا ذکر ملتا ہے انہوںنے اپنی حکمت ودانائی سے بڑا مقام اور مرتبہ پایا کہتے ہیں کہ اک بار حضرت لقمان کے مالک نے انہیں کہا کہ بکری ذبح کرو اور اس کے جسم کا سب سے بہترین اور نفیس حصہ پکا کرلے آؤ حضرت لقمان نے حکم کی تعمیل کی بکری ذبح کرکے اسکے دل اور زبان خوب اچھی طرح سے پکاکر اپنے آقا کی خدمت میں پیش کر دیا دوسرے دن مالک نے حضرت لقمان کو پھر طلب کیااور حکم دیاکہ آج پھربکری ذبح کرو،حضرت لقمان نے تعمیل کی اور بکری ذبح کرڈالی اب مالک نے اپنے دانا غلام سے عجیب فرمائش کی اورکہا کہ اس بکری میں جو سب سے بدترین چیز ہے زراوہ تو لا ؤ،حضرت لقمان یہ سن کر گئے اور طشتر ی میں بکری کے گوشت کے دو حصے رکھے اور مالک کے سامنے پیش ہوگئے مالک نے طشتری سے کپڑا اٹھایا تو اس میں پھر وہی زبان اور دل رکھا نظر آیااس نے سوالیہ نظروں سے اپنے غلام کو دیکھاگویا پوچھ رہا ہو کہ کل تک تو یہ بکری گوشت کے بہترین اور نفیس حصے تھے آج بدترین کیسے ہوگئے ،حضرت لقمان نے ادب سے عرض کیاآقا! اگر یہ دونوں صحیح ہوں تو ان سے بہترین کیا ہوگا اور اگردونوں خراب ہوں تو ان سے بدترکچھ ہوہی نہیں سکتاسیاہ ہونٹوں اور آبنوسی رنگت والے غلام سے منسوب یہ حکایت عرب ادب کی سرحدیں پھلانگ کرجانے کہاں کہاں نہیں پہنچی ،عجم میں اردو زبان نے بھی اسے خوش آمدید کہاا ور اسے بہترین جگہ دی پندو نصائح کی شائد ہی کوئی محفل اس حکائت سے دور رہی ہو مجھے حیرت ہے کہ ایاز صادق صاحب اس سے محروم کیسے رہے ! اشرافیہ سے تعلق اور ایچی سن کالج سے پڑھے ہوئے چھیاسٹھ سالہ ایاز صادق ذہنی اور جسمانی طور پر بہترین صحت کے حامل ہیںمتمول زندگی میں میسر بہترین نعمتوں نے ان کی صحت سنبھال رکھی ہے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سٹھیا گئے ہیں پھر انہیںپارلیمانی سیاست میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں برسوں بیت چکے ہیں کلینڈر میں محفوظ 1990ء کا وہ دن ایسا پرانا بھی نہیں جب انہوں نے ایچی سن کالج میں اپنے ہم جماعت عمران خان کا ہاتھ تھام کر تحریک انصاف میں قدم رکھا تھاتب سے اب تک تیس برس تو ہوچکے ہیں ان تیس برسوں میںسیاسی قبلے کی تبدیلی کے بعد وہ نہ صرف پارلیمان میں پہنچے بلکہ وہ قومی اسمبلی کے انیسویں اسپیکر بھی رہے وہ لگ بھگ تین برس اسپیکر کی کرسی سے ایوان کو چلاتے رہے ہیں ان کے لئے چیختے چلاتے چنگھاڑتے اپوزیشن ارکان کا سامنا کچھ نیا تو نہ تھا وہ اسپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت سے اس طرح کی صورتحال کا تقریبا ہر دوسر تیسرے دن قومی اسمبلی میں سامنا کرتے رہتے تھے ،الفاظ کے معانی لب ولہجے کو ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہوگاکہ ان کا تو کام ہی سننا تھا وہ اراکین اسمبلی کو سنتے انہیں حد میں رکھتے اور جو حد پار کرتااسے اسکی حد یاد لاتے ہوئے نامناسب الفاظ کارروائی سے ہی حذف کروا دیتے جیسے ادا ہی نہ ہوئے ہوں پھر انہوں نے گزشتہ ماہ اکتوبر کے آخر میں قومی اسمبلی میں جو کچھ کیا وہ کیا تھا ؟ میرے نزدیک ایاز صادق ’’چودھری فواد ‘‘ ہیں نہ ’’شہباز گل‘‘ میں انہیںحزب اقتدار اور حزب اختلاف کے تیزابی بیان بازوں کی فہرست سے دور رکھتا ہوں،کامرس گریجویٹ دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ایاز صادق کو پہلے کبھی اس قسم کے لفظی توپیں دم کرتے نہیں دیکھا لیکن کیا کیا جائے کہ انہیں بھی مسلم لیگ ن میں پرجوش خطابت کی ہوا لگ گئی میاں صاحب کی جانب سے پرجوش خطابت اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے اپنائی گئی جارحانہ حکمت عملی کے بعد مسلم لیگ ن عملا ’’ش‘‘ اور ’’ن ‘‘ میں بٹ چکی ہے ،ایک طرف وہ بیانیہ ہے جس میں اسٹیبلشمننٹ سے مکالمے کا راستہ کھلا رکھنے کے لئے ا لفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنیوالے موجود ہیں اور دوسری جانب آستینیں چڑھا کر ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ والے دکھائی دے رہے ہیں، پارٹی پر بیمار بھائی کے بیانئے کو بڑھوتری دینے کے لئے آنے والی بھتیجی کا جوش دیکھ کر شہباز شریف نے پتلی گلی سے نیب کے حوالات میں پناہ لینے میں غنیمت جانی جس کے بعدپارٹی میں ایک ہی بیانیہ رہ گیایعنی مسلم لیگ میں سیاست کرنی ہے تو اسی لب و لہجے میںورنہ جاڑے کے دن آتش دان کے سامنے اچھی اچھی کتابیں پڑھتے گزار لیجئے، شدید بیماری کے علاج کے لئے لندن پہنچنے والے میاں صاحب کے بلند آہنگ میں جوشیلے خطابات کے بعد مریم نواز صاحبہ نے ان کی تال میں تال ملاکر ساتھ چلنے کا یہی معیار ٹھہرایاہے ایاز صادق صاحب نے سوچ سمجھ کر ہی ’’ش ‘‘ چھوڑ کر ’’ن م ‘‘ کو ترجیح دی اور ہم نوواؤں کے ساتھ بیٹھے تو ا ن کے لئے منہ میں گھنگھنیاں رکھنا ممکن نہ تھا اور وہ ایسا کیوں کرتے جب ہم نواؤں کے ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کر چکے تھے ان پر لازم تھا کہ اسی لے میں پھیپھڑوں کے زور سے اونچا سر لگائیں اور انہوں نے یہی کیا بس جوش میں سر کچھ زیادہ ہی اونچا ہو گیااونچے سر میں گایا گیا یہ جملہ کہ اگر ابھی نندن کو نہ چھوڑتے تو بھارت نو بجے چڑھ دوڑتا ۔۔۔بھارت نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد سے اب تک ان کے اس بیان کو چار ہفتے گزر چکے ہیںلیکن بھارتی میڈیا اور بی جے پی کی کھلی باچھیں واپس اپنے مقام پر نہیں آئیں ،بی جے پی والے مونچھوں کو تاؤ دیتے نہیں رک رہے کہ دشمنوں کی صف سے ان کے حق میں گواہی آئی ہے ،ایاز صادق صاحب نے بعد میں وضاحتی بیان بھی جاری کیا لیکن اسکے پرائے جنازے پر بہائے گئے اشکوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں اورکیا اس سے پاکستان کو ہونے والا نقصان کم ہوسکے گا؟ ایاز صادق صاحب چار ہفتوں سے وضاحتیں کرکرکے عاجزآچکے ہیں لیکن بات بن کر نہیں دے رہی اور شائد بنے بھی نہیں افسوس کہ ایاز صادق صاحب کو اسی سرتال کے ساتھ تاریخ میں رہنا ہوگاکاش انہوں نے لقمان دانا کی وہ حکائت گرہ سے باندھ رکھی ہوتی اپنی زبان کو یوں آزاد نہ چھوڑتے لیکن اب تو سانپ گزر گیا لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ!