کوٹ لکھپت جیل میں قید کاٹتے سابق وزیراعظم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں مریم کی صورت جان نچھاور کرنے والی بیٹی میسر ہے جو باپ کی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے۔ یہ اس کی اپنے والد سے محبت ہے کہ وہ نتائج کی پروا کئے بغیر ہر قیمت پر اپنے والد کے لئے ریلیف چاہتی ہے۔ باپ اگر مجرم ہو، ڈاکو ہو، قاتل۔ بیٹی کے لئے آخر باپ ہی ہوتا ہے۔ مریم نواز کی جارحانہ طرز سیاست کو سمجھنا ہو تو صرف اسے باپ بیٹی کے رشتے کے آئینے سے دیکھیں۔ آپ کو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ مریم نواز کی آواز میں ساری طاقت دراصل اس کی اپنے والد سے محبت ہے۔ وہ نہ تو جمہوریت کو بچانے کے لئے گھر سے نکلی ہیں۔ نہ ووٹ کو عزت دلوانے کے لئے سیاست کر رہی ہیں۔ نہ ہی عوام کا درد ان کے دل کو تڑپا رہا ہے۔ یہ ساری اصطلاحات اور نعرے اگر وہ اپنی تقریروں میں استعمال کرتی ہیں تو اسے ہم سیاسی سٹنٹ ہی کہیں گے۔ یہاں جمہوریت اور سیاست اسی دھوکہ دہی کا دوسرا نام ہے۔ جلسوں، ریلیوں میں، تقریروں اور نعروں میں عوام کا نام لے لے کر سیاستدان ہمیشہ سے اپنے مفاد کے گیسو سنوارتے رہے ہیں۔ یہی کچھ اس وقت مریم نواز کر رہی ہیں۔ ان کی اصل تکلیف ان کے والد کی قید ہے۔ اس وقت ان کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ ہر صورت والد کی رہائی ہو۔ مریم نواز نتائج کی پروا کئے بغیر ایسی جارحانہ سیاست کیوں کر رہی ہیں اس کو سمجھنے کے لئے اس سارے منظرنامے کو باپ بیٹی کے رشتے اور اس رشتے میں گندھی محبت کے آئینے سے دیکھیں۔ اس سیاسی منظرنامے میں شہباز شریف اپنی خاموشی اور مصلحت کوشی کے ساتھ اپنی بھتیجی مریم نواز سے دو قدم پیچھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی قید، بیماری، جیل میں ملاقاتوں پر پابندی، اور گھر کے کھانے پر پابندی لگنے سے جو تکلیف نواز شریف کی بیٹی محسوس کرتی ہیں وہ سابق وزیراعظم کے برادر خورد محسوس نہیں کر سکتے۔ اس ماحول میں جب کہ ن لیگ کی آدھی قیادت جیلوں میں، اور کچھ عدالتوں اور نیب کے چکروں میں پھر رہے ہیں، اس ساری فضا میں شہباز شریف کوئی بھی سیاسی چال چلنے سے پہلے سو بار اس کے نتائج مضمرات اور ثمرات پر غور کریں گے۔ اسی کا نام مصلحت پسندی ہے۔ یہ شہباز شریف کا طرز سیاست ہے۔ وہ مفاہمت اور مصلحت کے راستے پر سیاست کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ان کی بھتیجی اس وقت ساری مفاہمت اور مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر سیاست کر رہی ہیں اور اس سیاست کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ والد صاحب کو ہر صورت ریلیف دلانا۔ اگر مریم نواز کو ان سیاسی منظر نامے سے مائنس کر دیں۔ یا مریم نواز کو ن لیگ سے مائنس کرکے دیکھیں تو ن لیگ میں اس وقت خاموشی کی فضا ہوتی۔ نواز شریف قید کاٹ رہے ہوتے۔ اس وقت پارٹی ٹوٹ پھوٹ اور گروپنگ کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ورکروں میں دم خم نہیں کہ نواز شریف کے لئے سڑکوں پر نکلیں، عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نواز شریف بیمار ہیں اور جیل میں ہیں، اور یہ کہ ان کا کھانا بند کر دیا گیا ہے۔ انہیں دل کے اتنے دورے پڑ چکے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ برس ہا برس کی لوٹ مار نے ہی ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ عوام الناس اس حقیقت کو سمجھ رہے ہیں کہ ان سیاستدانوں نے خواہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہوں، ملک کے خزانے کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا ہے۔ ملک کو پیراسائٹس کی طرح کھایا ہے، سو ایسے مفاد پرست سیاستدانوں کے لئے عوام کا گھروں سے باہر آنا اور آواز اٹھانا ناممکن ہے۔ یہی شہر لاہور ہے جو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اسی شہر کی کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف قید ہیں۔ شہر میں کہیں کوئی ہلچل نہیں۔ تکلیف اگر ہے تو وہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو ہے۔ جو تکلیف مریم نواز محسوس کرتی ہے وہ شہباز شریف، ہو یا حمزہ شہباز، قطعاً محسوس نہیں کر سکتے۔ اس لئے مصلحت کوشی کی اس فضا میں جو جارحانہ سیاست مریم نواز کر سکتی ہیں، اس کی توقع برادر خورد اور بھتیجے حمزہ سے رکھنا عبث ہے۔ تازہ ترین ویڈیو لیک پریس کانفرنس سے پہلے ہی مریم نواز نے ایک طویل پریس کانفرنس کی تھی جس میں اپنے والد کی بیماری کے حوالے سے پریس کے سامنے تفصیلاً بات چیت کی ۔ ویڈیو لیکس کی پریس کانفرنس نے تو گویا پورے سیاسی منظرنامے پر ایک ہلچل مچا دی ہے۔ اس ویڈیو کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور فرانزک ٹیسٹ ہونا ازحد ضروری ہے۔ اگر یہ ویڈیو جعلی ثابت ہوئی مریم نواز شریف کا یہ سیاسی قدم ان کی اپنی سیاست اور ن لیگ پر ایک خودکش حملہ ثابت ہو گا۔ لیکن اگر اس ویڈیو میں بیچ کے کچھ عناصر پائے گئے اور اس کی اصل ہونے کی تصدیق فرانزک ٹیسٹ سے ہو جاتی ہے تو پھر پاکستان کی سیاست ایک بالکل نئے رخ پر مڑ جائے گی۔ اداروں کی ساکھ پر سوال الگ اٹھے گا! عدلیہ پر اعتماد چکنا چور ہو گا۔ دیکھئے آنے والے دنوں میں حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔ سردست تو نواز شریف کی بیٹی اپنے والد کا کھانا بند کرنے پر دھمکی دے چکی ہیں کہ وہ اس پر بھرپور احتجاج کریں گی۔ بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی دے چکی ہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، آپ انہیں راج کماری کہیں یا بیگم صفدر، مریم نواز کی دبنگ طرز سیاست کی نفی ممکن نہیں۔ اس وقت مریم نواز شریف کو مائنس کر دیں تو ن لیگ کا سیاسی منظرنامہ ویران، خاموش اور خالی دکھائی دے گا۔