کچھ اور نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عمومی معاشرتی رویے نا انصافی پر مبنی ہیں۔ ناانصافی کا سلوک اگر اربابِ اختیار کی جانب سے ہو تو ظلم کہلاتا ہے۔ چنانچہ اگر کہا جائے کہ وطنِ عزیز میں روزِ اوّل سے ہی ظلم کا نظام رائج ہے، توکیا ایسا کہنا غلط ہو گا؟برطانیہ ہے کہ جہاں آج بھی لکھا ہواآئین موجود نہیں۔ صدیوں سے سینہ بہ سینہ روایات ہیں۔ وطنِ عزیز سر زمینِ بے آئین ہر گز نہیں۔مگر آئین کچھ ایسا ہے کہ جس کی ناک موم کی سی ہے۔ روایات کا احترام تو دور کی بات، صاف صاف لکھا ہوا بھی ہر کوئی اپنی عینک سے پڑھتا ہے۔کیا قومی رویوں میں اس قدر تفاوت ممکن ہے؟ خورشید کمال عزیزنے ، ’مرڈر آف ہسٹری‘ میںلکھا’پاکستانی ہیجانیت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔چنانچہ ایک پاکستانی کا سیاسی رویہ اس کی معاشرتی زندگی کا ہی آئینہ دارہے‘۔گزرے برس جو رجیم چینج آپریشن ہوا، اب تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ ہی اس باب میں اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔دوسری طرف کیا دو درجن معزز ارکانِ اسمبلی، سندھ ہائوس اور بعد ازاں ایک فائیو سٹار ہوٹل سے برآمد نہیں ہوئے تھے؟ انہی میں سے ایک ہمارے آج کے قائدِ حزب اختلاف بھی ہیں۔ کیا قائد حزب اختلاف کا عہدہ کوئی معمولی عہدہ ہے؟کیا قائد حزب اختلاف کو کسی نے کبھی شرمسار دیکھا؟عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی ارکان کے اجتماعی استعفوں کا عجلت میں منظور کیا جانا قانونی طور پر درست عمل تھا کہ نہیں، اس پر بحث ہو سکتی ہے۔معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر جانے والے گروہی تعصبات کی دھند میں لپٹے ایسے سوالوں کے جوابات ڈھونڈنا آسان کام نہیں۔ نومنتخب سپیکر قومی اسمبلی نے مگر آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ آئین کی متعلقہ شقوں ، اسمبلی کے قوانین اور اعلیٰ عدالتوں کے متعدد فیصلوں کو بنیاد بنا کر اپنے پیش رو کی جانب سے اجتماعی استعفوں کی منظوری کے فیصلے کو منسوخ کردیا۔سیاسی فیصلے صوابدیدی ہوتے ہیں کہ جن کے سیاسی نتائج ہوتے ہیں۔بظاہر عمران خاں اور ان کی جماعت اس فیصلے کی قیمت گزشتہ دس مہینوں سے چکاتی چلی آرہی ہے۔ سپیکر صاحب کا فیصلہ مگر ایک خالصتاََ آئینی حکم تھا۔ چنانچہ پوچھا جا سکتا ہے کہ سپیکر جیسے آئینی اور معتبردفتر کی جانب سے حال ہی میں اپنے مہینوں سے تواتر کے ساتھ دہرائے جانے والے موقف سے راتوں رات مکر جانا اور کئی ایک استعفوںکا تومبینہ طور پر ’بیک ڈیٹ‘ میں منظورکیا جانا، کیاان کے عہدے کے وقار میں اضافے کا سبب بنا ہے یا کہ مزید گراوٹ کا؟لاہور ہائی کورٹ نے جن ارکان کے استعفوں کا نوٹیفیکیشن منسوخ کئے جانے کا حکم جاری کیا تھا وہ اگلے روز اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے تو اسپیکر صاحب نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔بظاہر مقصودجناب راجہ ریاض کوہی قائدِ حزب اختلاف برقرار رکھنا ہے۔ کسی بھی مہذب جمہوری ملک کے اندر ملک کسی گرداب میں پھنستا ہے تو پہلا راستہ عوامی رائے دہی یعنی ریفرنڈم یا تازہ انتخابات کی جانب لوٹنا ہوتا ہے۔سیاسی عدم استحکام، معاشی بے یقینی اور دہشت گردی کے گرداب میں پھنسے وطن عزیز میںکہنے کو جمہوری نظام رائج ہے۔تاہم یہ جمہوریت ایسی ہے کہ جس میں عوامی حقِ رائے دہی کا تصورموجود نہیں۔ اب تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ انتخابات اسلام آباد میں بلدیاتی سطح کے ہوں یا کہ صوبائی اورقومی اسمبلیوں کے، حکومتی بندوبست فی الحال کسی بھی درجے پرعوام کو حق رائے دہی عطا کرنے کو تیار نہیں۔تاہم دوسری جانب یہ پوچھنابھی یکسربے جا نہیں ہوگا کہ ایک ایسی فضا میںکہ جب پورے کا پورا ’نظام‘ عمران خاں اور ان کی جماعت کو نیست ونابود کرنے کے درپے ہے تواُن کی طرف سے سسٹم کے اندر رہنے کی بجائے ایک کے بعد ایک خلاء چھوڑے چلے جانا کہاں کی دانشمندی ہے؟خان صاحب کو در پیش ایک اورخود ساختہ مسئلہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ اپنے متواترطرزِ عمل اور آئے روز بیانات کے ذریعے وہ گھبرائے ہوئے’سسٹم‘کو مزید خوف زدہ کئے رکھتے ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی واپسی کو بھانپتے ہو ئے مہینوں سے زیرِ التوا ء استعفوں کو غیر معمولی سرعت کے ساتھ قبول کر لیا جاتا ہے کہ جس کا مطلب ملک کے طول و عرض میں اِن ایک سو سے زیادہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہے۔ الیکشن کمیشن سرعت کے ساتھ ان حلقوں کے لئے انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیتا ہے۔وسائل کی کوئی کمی بھی آڑے نہیں آتی۔ جبکہ دوسری جانب صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میںیہ ہی طے نہیں ہو پا رہا کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔ اب جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا حکم دے دیا ہے،دیکھنا یہ ہے کہ حکم پر کب تک اور کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے ۔اندریں حالات صو رت حال یہ ہے کہ ایک طرف جہاںخان صاحب کونا اہل کئے جانے کے لئے پیش قدمی جا ری ہے، تووہیں دوسری طرف ان کے ساتھیوں اور ان کے حق میں لکھنے بولنے والے صحافیوں پر ملک کے طول و عرض میں حیران کن الزامات کے تحت مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔اندریں حالات کیاخان صاحب کو ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے کہ جو ناانصافی، بے اصولی اور ظلم کے نظام پر قائم ہو ، اپنی ’ویسٹ منسٹرتوقعات ‘پربھی نظر ثانی کرنے کی کوئی ضرورت ہے یا نہیں؟مہذب ملکوں میں نصف درجن ارکانِ پارلیمنٹ کا یکا یک مستعفی ہونا نئے انتخابات کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔کیا پاکستان جیسے معاشروں میں بھی اجتماعی استعفوں، اپنی ہی حکومتیں توڑنے اور جیل بھرو جیسی علامتی تحریکوں کے ذریعے کسی’حکومتی بندوبست‘ کو گھر بھیجا جا سکتا ہے؟اگرچہ تیسری دنیا کے ممالک میں ایک انتہائی غیر مقبول حکومتی بندوبست کا تمام تر عوامی مخالفت کے باوجود اپنی جگہ پر ڈٹے رہنا اچھنبے کی بات نہیں، تاہم اگروہی لڑکھڑاتا، کپکپاتا بندوبست ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کوکامیابی کے ساتھ دیوار کے ساتھ لگاتا دکھائی دے رہا ہو تو کئی سوالات جنم لینے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگرکسی کو اس سب کے پسِ پشت عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ دکھائی دینے لگے تو کیا اس قیا س آرائی کو بے سرو پا قرار دیا جا سکتا ہے؟ ایسی قیاس آرائیوں کو تقویت اس وقت ملتی ہے جب پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور سویلین بالا دستی کے پھریرے لہرانے والے جانے پہچانے مخصوص دانشورلمبی تان کر سو ئے پڑے ہوں۔ خورشید کمال عزیز نے اپنی مذکورہ بالاکتاب میں ان سوئے پڑوں کو ’خود ستائی، زعمِ برتری کر مارے چڑچڑے دانشور‘ کہہ کر یاد کیا تھا۔تاہم پاکستانیوں کے عمومی معاشرتی رویوں کے اسی خلاصے میں سے ایک جملہ یوں بھی لکھا،’جھوٹ اور دھوکہ دہی میں پکڑے جائیں تو شرمسار نہیں ہوتے۔اپنی پارسائی پر اصرار کرتے ہیں۔‘