بیالیس سالہ سعادت حسن منٹو کو دنیا سے گئے ہوئے چھیاسٹھ برس ہو گئے لیکن سچ بات یہ ہے کہ یہ موت منشی غلام حسن کے فرزندِ ارجمند… صفیہ بیگم کے خاوند… نصرت، نگہت ، نزہت کے ابا جی… میٹرک میں اُردو کے پرچے میں فیل ہونے والے سعادت حسن کو آئی ہے… افسانہ نگار منٹو آج بھی دائم آباد نامی بستی میں دھڑلے سے مقیم ہے اور جب تک دنیا میں اُردو زبان کا وجود قائم ہے، وہ یہ جائز قبضہ چھوڑتا نظر نہیں آتا۔ ایک زمانے میں سعادت حسن نے، منٹو کا با کمال خاکہ لکھا (جو اُن کی کتاب ’سرکنڈوں کے پیچھے‘ میں شامل ہے)جس میں وہ منٹو کے افسانہ لکھنے کے عمل کی رُوداد یوں بیان کرتا ہے: ’’جب اسے افسانہ لکھنا ہوتا ہے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے، جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے، لیکن وہ انڈا کہیں چھپ کر نہیں دیتا، سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار بیٹھے ہوتے ہیں، اس کی تین بچیاں شور مچا رہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص کرسی پر اُکڑوں بیٹھا انڈے دیے جاتا ہے، جو بعد میں چوں چوں کرتے افسانے بن جاتے ہیں۔ ‘‘ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اُردو ادب میں منٹو کا ورُود ایک مزاح نگار کی حیثیت سے ہوا تھا۔ ان کا اولیں مجموعہ ’منٹو کے مضامین‘ (۱۹۴۲ئ) اس حقیقت پر دال ہے لیکن اس زمانے میں افسانے کا پُر شور دریا اتنی روانی سے بہہ رہا تھا کہ منٹو جیسے ادبی ہاتھی کو بھی بہا کر لے گیا۔ اس کے باوجود ان کے خاکوں، ڈراموں، خطوط اور متعدد افسانوں میں طنز اور مزاح آنکھ مچولی کھیلتے نظر آتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اتنا ضرور ہوا کہ اس دور کے حالات نے مزاح نگار منٹو کے چہرے سے ظرافت و شگفتگی کا نقاب اتار کر اس کے ہاتھ میں طنز کا تُند و تیز نشتر تھما دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مَیں پنجاب یونیورسٹی سے ’اُردو نثر میں طنز ومزاح‘ کے موضوع پر پی ایچ۔ ڈی کر رہا تھا۔ اس دوران مَیں نے منٹو کی تحریروں کا بالاستعیاب مطالعہ شروع کیا تو مزاح نگار منٹو سے حیران کُن تعارف ہوتا چلا گیا۔ ۲۰۰۳ء میں مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی تو مَیں نے منٹو کی اس حیثیت کو نمایاں کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ منٹو کی ایسی تحریریں جن میں مزاح کا پہلو غالب ہے، الگ کرنا شروع کیں تو پانچ صد صفحات کی ایک کتاب تیار ہو گئی، جسے ۲۰۰۷ء میں بیت الحکمت، لاہور نے ’’منٹو اور مزاح‘‘ کے عنوان سے شایع کیا۔ جب منٹو کی صد سالہ تقاریب کے حوالے سے ہم نے ان کی تینوں بیٹیوں کو ایف سی کالج میں مدعو کیا تو ان کے لیے بھی یہ حیران کُن اور نیا موضوع تھا، جس پہ پہلے توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اسی انفرادیت کی بنا پر ۲۰۱۳ء میںبھارت میں اُردو کتابوں کے سب سے بڑے پبلشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے بھی اسے شایع کیا۔ وہاں سے یہ کتاب مجھے برادرم شاہد حنائی اور بعد ازاں ممبئی میں مقیم محترمہ میمونہ چوگلے کے تعاون سے پہنچی۔ ایک لطیفہ یہ ہوا کہ مجھے اس کتاب کے ناشر کا شکوہ آمیز فون آیا کہ آپ نے کتاب کے حقوق کسی اور پبلشر کو دے دیے ہیں؟ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ ٹمپل روڈ لاہور کا ایک پبلشر بھی اس کتاب کو نہایت آن بان شان کے ساتھ شایع کیے بیٹھا ہے۔ مَیں ایک دن اچانک مذکورہ پبلشر کے ادارے میں پہنچ گیا اور کتاب کی بابت دریافت کیا، فرمانے لگے: یہ انڈیا کے کسی ڈاکٹر اشفاق احمد وِرک کی کتاب ہے، جسے ہم نے شیخ مبارک والوں سے حاصل کر کے شایع کیا ہے۔ عرض کی کہ کتاب کے محقق کا تعلق انڈیا نہیں بلکہ لاہور ہی سے ہے اور وہ اس وقت اتفاق سے آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔ اس کے بعد کا قصہ بھی مزے دار ہے لیکن اضافی ہے کہ ہم اس وقت آپ کو مزاح نگار منٹو سے ملوانے جا رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد بمبئی سے لاہور پہنچنے پر منٹو لکھتے ہیں: ’’میرے دماغ میں گرد و غبار اُڑ رہا تھا، آہستہ آہستہ بیٹھ گیا اور مَیں نے سوچا کہ ہلکے پھلکے مضامین لکھنے چاہئیں، چنانچہ مَیں نے متعدد فکاہیہ مضامین ’امروز‘ کے لیے لکھے جو پسند کیے گئے۔‘‘ منٹو کی پہلی تینوں کتابیں، تقریباً تمام ڈرامے، ’گنجے فرشتے‘ اور ’ لاؤڈ سپیکر‘ کے متعدد خاکے، اُلّو کا پٹھا، قبض اور ایکٹریس کی آنکھ جیسے کتنے ہی افسانے نیز چچا سام کے نام لکھے تمام خطوط ان کے اسی شگفتہ ذوق کی دستاویز ہیں۔ ’سیاہ حاشیے‘ کے مختصر افسانچوں کو تو حسن عسکری نے ویسے ہی ہولناک لطیفے قرار دیا ہے، جن کو پڑھ کے قاری زار زار ہنستا اور بار بار روتا ہے۔ مَیں نے مزاح اور منٹو سے محبت کی بنا پر ایک ڈیڑھ سال کی محنت سے ایسی جملہ تحریروں کو ’منٹو اور مزاح‘ میں سمو دیا۔ کالم زیادہ تفصیل کا متحمل نہیں ہوتا۔ ہم فی الحال منٹو کے کچھ اقتباسات پہ اکتفا کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں اقبال نے اعتراض اٹھایا تھا کہ: ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار ظاہر ہے اتنے بڑے شاعر کے اتنے بڑے اعتراض کا جواب کوئی بڑا فنکار ہی دے سکتا تھا، چنانچہ منٹو لکھتے ہیں: ’’ سچ تو یہ ہے کہ ہبوطِ آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے اور کیوں نہ رہے، مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہیے؟ جب کبوتر کبوتریوں کو دیکھ کر گُٹکتے ہیں تو مرد عورتوں کو دیکھ کر ایک غزل یا افسانہ کیوں نہ لکھیں؟ عورتیں کبوتریوں سے کہیں زیادہ دلچسپ، خوب صورت اور فکر خیز ہیں۔‘‘ مختلف خاکوں سے کچھ جملے: ’’حیدر آباد والوں کی آنکھ کا مثانہ بہت کمزور ہوتا ہے… موقع بے موقع ٹپکنے لگتا ہے۔‘‘ ’’شکل و صورت اور وضع قطع کے اعتبار سے وہ (میرا جی) بالکل ایسا ہی تھا جیسا اس کا بے قافیہ، مبہم کلام!‘‘ ’’ وہ (شیام)ہر خوبصورت چیز پر مرتا تھا … میرا خیال ہے کہ موت ضرور خوبصورت ہوگی، ورنہ وہ کبھی نہ مرتا۔‘‘ ’’قصہ مختصر یہ کہ شوکت کے بیڈ روم میں جس فرنیچر کی کمی تھی، وہ پوری ہو گئی۔‘‘ (خاکہ نور جہاں) ’’ میری اور حسرت کی دوستی سانڈ اور کتے کی دوستی ہے۔‘‘ (خاکہ: چراغ حسن حسرت) چچا سام کے نام لکھے منٹو کے خطوط تو ستر سال بعد نہ صرف تازہ ہیںبلکہ شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں، صرف ایک مثال: ’’ہندوستان لاکھ ٹاپا کرے ۔ آپ پاکستان سے فوجی امداد کا وعدہ ضرور کریں گے، اس لیے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو؟ یہاں کا مُلّا روس کے کیمونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کا سلسلہ شروع ہو گیا تو آپ سب سے پہلے ان مُلّاؤں کو مسلّح کیجیے گا۔ ان کے لیے خالص امریکی ڈھیلے، خالص امریکی تسبیحیں اور خالص امریکی جائے نماز روانہ کیجیے گا۔‘‘ دو جملے احمد ندیم قاسمی کے نام خطوط سے: ’’مَیں نے تمھیں اپنے ضمیر کی مسجد کا امام مقرر نہیں کیا، صرف دوست بنایا ہے۔‘‘ ’’اگر تم نے ایک رسالے میں میرے نام’’ کھلی چٹھی‘‘ لکھی ہے تو مَیں تمھارے نام کسی اور رسالے میں ’’بند خط‘‘ لکھوں گا۔‘‘