عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ،وزیر ریلوے لال حویلی راولپنڈی والے شیخ رشید احمد ، ہر روز اور ہر موضوع پر کچھ نہ کچھ بولنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ پرسوں 13 جولائی کو ،موصوف نے ایک ہی نشست میں بہت کچھ کہا لیکن، مجھے اُن میں سے صرف تین باتوں سے دلچسپی ہے ۔ ایک یہ کہ بقول شیخ صاحب ’’ وزیراعظم عمران خان، امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لئے 20 جولائی کو امریکہ جا رہے ہیں ‘‘ لیکن، شیخ صاحب نے کہا کہ ’’ اللہ خیر کرے کیوں کہ دونوں لیڈروں کا مزاج ایک جیسا ہے ‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ یہ تو ، آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ’’ یہ ایک دُعائیہ جُملہ ہے اور اِس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں اللہ تعالیٰ ہمارے وزیراعظم عمران خان کو خیریت سے رکھیں!‘‘۔کئی سال پہلے ’’ مصورِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے ( یقینا مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہُوئے ) کہا تھا کہ … لفظ اسلام سے یورپ ؔ کو ، اگر کدہے تو خیر! دوسرا نام اِسی دین کا ہے ’’ فقرِ غیور‘‘! …O… یعنی۔ ’’ اگر یورپؔ کو اسلام ؔ کے نام پر ’’ چڑ‘‘ (نفرت )ہے تو مضائقہ نہیں ۔ ہم اسلام ؔکا لفظ استعمال نہیں کریں گے ، اِسے باغیرت فقر (فقیری / ضرورت مندی ) کہیں گے ۔ آخری مُغل (شاعر) بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے اُستاد محمد ابراہیم ذوقؔ نے نہ جانے کسی بڑی شخصیت سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … کچھ بہت خوش ، مزاجِ ؔعالی ہے ! تُو نے یہ چڑ، مری نکالی ہے ! …O… شیخ رشید احمد ’’جہاں دِیدہ ‘‘ ( گرم و سرد چشیدہ ) سیاستدان ہیں اور جنابِ عمران خان سے اُن کی دیرینہ شناسائی ( بلکہ آشنائی) ہے ۔ اِس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ’’ وہ (شیخ صاحب ) جناب عمران خان کے مزاج شناس بھی ہوں گے لیکن، کیا محض الیکٹرانک میڈیا پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انٹرویوز ، سُن کر یا پرنٹ میڈیا پر اُن کے افکار و نظریات کو پڑھ کر ، شیخ رشید احمد سات سمندر پار بیٹھ کر بھی امریکی صدر کے مزاج دان بن گئے ہیں ؟۔ اِس پر مجھے فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دَور کے ’’رُکن مغربی پاکستان اسمبلی ‘‘ بلوچستان کے شاعر میر عبدالباؔقی بلوچ یاد آگئے ۔ میر صاحب کی محبوبہ کو اُس کے بزرگوں ( میکے والوں )نے لندن بھجوا دِیا تھا ۔ اِس واقع پر ، اُن دِنوں میر عبدالباؔقی بلوچ کا یہ شعر بہت مقبول ہُوا تھا کہ … سات سمندر پار سہی وہ ، لیکن باقی ؔدِل کا حال! اِسی ساحل سے، اُس ساحل تک ، سب پہنچایا موجوں نے! …O… رقیبوں (حریف سیاستدانوں ) سے دِل لگیؔ کرنا شیخ رشید احمد کا ذوق ہے ۔ اُستاد شاعر حضرت داغ ؔدہلوی چونکہ سیاستدان نہیں تھے ۔ اُنہوں نے اپنی صفائی میں صاف کہہ دِیا تھا کہ … دِل لگی کیجئے، رقیبوں سے ! اِس طرح کا ،مرا ، مزاج نہیں! …O… لیکن، سوال یہ ہے کہ ’’ وزیراعظم پاکستان کی امریکی صدر سے محض تین دِن کی ملاقات میں کھُل کھلا کر کتنی باتیں ہوسکتی ہیں ؟۔ اتنے مختصر وقفے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ ہور سُنائو سجنو ! کِیہ حال چال اے!‘‘۔ سابق ( نااہل ) وزیراعظم میاں نواز شریف کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلی ملاقات ہوتی تو، اُن کی طرف سے اُن کا مصاحب کہہ سکتا تھا کہ… آپ نے ہم کو ، بنایا ہے حلیف! کچھ تو ہیں آپ کے ، مزاج شریف! معزز قارئین!۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’ری پبلکن پارٹی ‘‘ کا انتخابی نشان ہے ’’ ہاتھی‘‘ (Elephant) اور جنابِ عمران خان کی ’’ پاکستان تحریک انصاف‘‘ کا ’’ بلا‘‘ (Bat) ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا صدر امریکہ اور وزیراعظم پاکستان کی ملاقات میں اپنی اپنی پارٹی کے انتخابی نشان پر بھی بات ہوگی ؟‘‘۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کے بارے میں ایک خاص نکتے کا تذکرہ کِیا گیا ہے کہ’’ دونوں حکمرانوں میں جنوبی ایشیا میں امن کے فروغ کے لئے خاص طور پر بات ہوگی‘‘۔ اچھی بات ہے لیکن، جنابِ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب نومبر 2016ء میں اپنی انتخابی مہم شروع کی تو، کئی جلسوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ "I Love India" ۔ جب وہ جیت گئے تو، مَیں نے اِس پر ’’ نوائے وقت ‘‘ میں "Trump Card of the Elephant" کے عنوان سے اپنے 11 نومبر 2016ء کے کالم میں اپنے دوست ’’ شاعر سیاست‘‘ کے یہ دو شعر شامل کئے تھے … کِیتا اے کمال ، ماریا کِنا سُوہنا "Jump" جی! ہیلری سیاست تُسِیں کردِتّی "Dump" جی ! …O… مودی جی نُوں جِنّا چاہو کر دے رہَو ، "Pump" جی ! ساڈے نال وی یاری لائو "Donald Trump" جی! …O… اور آخر میں لکھا تھا ۔اصل کمال تو ہاتھی کے انتخابی نشان والی ری پبلکن پارٹی کا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی صدر جارج ڈبلیو بش سینئر کی طرح پوری دُنیا پر چھا جائیں اور عالمی بساطِ سیاست پر وہ واقعی "Trump Card Of The Elephant" ثابت ہوںگے ؟لیکن، واحد اسلامی ایٹمی طاقت کے وزیراعظم کو محض اِدھر اُدھر کی باتوں سے ٹرخانا بہت مُشکل ہوگا؟۔ ’’مہاراجا پورس کے ہاتھی‘‘ معزز قارئین!۔ شیخ رشید احمد نے اپنے بیان میں (326۔315 قبل از مسیح) قدیم پنجاب میں دریائے جہلم، اور دریائے چناب کے درمیانی علاقہ ’’ پور و دیش ‘‘ کے جنجوعہ راجپوت مہاراجا پورو، ( یونانی زبان میں ) پورسؔ "Porus" کا بھی تذکرہ کِیا ہے ۔ جس نے (326قبل از مسیح ) یونان ( مقدونیہ ) کے حملہ آور سکندرِ اعظم سے مقابلہ کِیا تھا ۔ مہاراجا پورس ؔ ہاتھی پر سوار تھا اور اُس کے بہت سے جرنیل اور جوان بھی۔ دراصل ہندو دیو مالا کے مطابق ’’ تباہی و بربادی کے دیوتا ’’بھگوان شِوا ‘‘اور اُن کی پتنی ( بیوی ) پاروتی کے بیٹے گنیش جی کا سر ہاتھی کا اور جسم اِنسان کا تھا ۔ ہندو قوم ہر دیوتا کی پوجا کرنے سے پہلے گنیش جی کی پوجا کرتی ہے ۔ سکندرِ اعظم اور مہاراجا پورسؔ کی فوجوں میں لڑائی ہُوئی تو، گھوڑوں پر سوار سکندرِ اعظم کے فوجیوں نے ، مہاراجا پورسؔ کے ہاتھیوں کو دھکیل دِیا تھا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ مہاراجا پورس کے ہاتھیوں نے اپنے ہی فوجیوں کو روند دِیا ۔ مہاراجا پورس نے شکست تسلیم کرلی اور جب اُسے سکندرِ اعظم کے سامنے پیش کِیا تو ، اُس نے مہاراجاسے کہا کہ ’’ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کِیا جائے تو ، مہاراجا نے اتنہائی دلیری سے جواب دِیا کہ ’’ جو سلوک بادشاہ ۔ بادشاہوں سے کرتے ہیں‘‘۔ سکندرِ اعظم کو مہاراجا پورس کا یہ جواب پسند آیا ۔ اُس نے مہاراجا کو اپنا دوست بنا لِیا اور اُس کی ریاست اُسے بخش دِی۔ پھر مہاراجا پورس اور اُس کی فوج دریائے بیاس تک سکندر اعظم کے ساتھ گئی لیکن، سکندر اعظم کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کردِیا تھا ۔ معزز قارئین!۔ سکندرِ اعظم وطن واپس روانہ ہُوا تو، اُسے ضلع گوجرانوالہ میں ’’گھکھڑ منڈی ‘‘ کے ایک گھکھڑ راجپوت نے سکندرِ اعظم کو زخمی کردِیااور اُس کے محافظ اُسے زخمی حالت میں ہی مقدونیہ واپس لے گئے جہاں اُس کی موت واقع ہوگئی لیکن، قدیم ہندوستان اور اب برصغیر پاک و ہند میں جب بھی مہاراجا پورس کا ذکر آتا ہے تو، اُس کے ہاتھیوں کا بھی جو، اُس کی شکست کا باعث بن گئے تھے ۔ شیخ رشید احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’ ویڈیو سکینڈل میں مسلم لیگ (ن) بُری طرح پھنس چکی ہے ۔ مریم نواز مسلم لیگ (ن) کے لئے ’’ پورس کی ہتھنی‘‘ ثابت ہوں گی ‘‘۔لال حویلی والے شیخ رشید احمد کی دِل لگی کی باتوں کا مَیں عرصہ دراز سے دفاع کر رہا ہُوں ۔ مَیں اِس وقت اُس سے یہی گذارش کرنے کی کوشش کررہا ہُوں کہ’’ سکندرِ اعظم اور مہاراجا پورس کی جنگ میں مہاراجا پورس کے جنگی ہاتھیوں نے تو، حصّہ لِیا تھا لیکن، اُن کے ساتھ کوئی ہتھنی نہیں تھی۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لئے یہ بے حد ضروری ہے ۔ مَیں نے اپنے 26 جنوری 2017ء کے کالم میں اپنے دوست ’’شاعرِ سیاست ‘‘ کا یہ مصرعہ شامل کِیا تھا کہ … لال حویلی والڑیا ، مَیں تیریاں خَیراں مَنگاں!