غسان کنفانی فلسطین کے مزاحمتی ادب کا ایک روشن ستارہ ہے۔زندگی کی کل چھتیس بہاریں دیکھنے والا یہ مشہور فلسطینی کہانی نویس، نقاد،لکھاری اورسیاستدان اسرائیلی ریاست کے قیام سے بارہ برس قبل 8اپریل 1936ء کوفلسطین کے شمالی علاقے عکامیں پیدا ہوئے۔ کنفانی محض بارہ سال کے تھے کہ ارض ِفلسطین پر اسرائیل کے نام کی ایک ناجائز ریاست وجود میں آئی اوریہیںسے فلسطینیوں کاجینا دوبھرہوناشروع ہوا۔ان کے والد فائز عبدالرزاق کنفانی اگرچہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے،تاہم وہ سیاسی طورپربھی کافی متحرک تھے۔والد کی سیاسی تربیت کانتیجہ تھاکہ غسان کنفانی بعدمیںایک مزاحمتی ادیب بھی بنے۔اسرائیلی ریاست کے قیام کے پہلے سال کنفانی خاندان کو اس وقت لبنان ہجرت کرناپڑاجب اپریل 1948 میں عکا پر صیہونی افواج نے پہلا باضابطہ حملہ کیا ۔لبنان کے الصید میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعدفلسطین سے یہ بے دخل خاندان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں حلب اور زبدانی سے ہوتاہوا شام کے دارالخلافہ دمشق پہنچا۔ خاندان کی کفالت کیلئے وہاں کنفانی کبھی ریڈیومیں محنت مزدوری کرتے توکبھی عرض نویسی اوراخبارات میں پروف ریڈرکے طورپرکام کرتے۔یہ وہ زمانہ تھا جب سکول سے فراغت کاسندلینے کے بعد غسان کنفانی کی ملاقات جارج حبش (عرب قومیت کے اولین بنیادکار)سے ہوتی ہے اور وہ '' حرکۃ القومیین العرب‘‘نامی تنظیم کوجوائن کرکے عرب نیشنلزم کاعلم بلندکرتے ہیں۔اسی زمانے میں انہوں نے عربی ادبیات پڑھنے کیلئے جامعہ دمشق میں بھی داخلہ لیا ۔تعلیم کے دوران جب انہوں نے سیاسی سرگرمیاں بڑھادیں توان کویونیورسٹی سے نکال دیاگیا ۔1956 ء کوکنفانی شام سے کویت چلے گئے اورایک سرکاری سکول میں ڈرائنگ ماسٹر کے طور پر ملازمت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ صحافت سے بھی جڑے رہے۔کویت میں قیام کے دوران انہوں نے ’’ القمیص المسروق ''کے عنوان سے پہلا افسانہ تخلیق کیا جس پر اسے ایک ادبی مقابلے میں ایوارڈ بھی ملا۔ساٹھ کی دہائی کا آخری سال تھاکہ کنفانی کویت سے بیروت منتقل ہوئے جہاں انہوں نے وسیع پیمانے پرادبی تخلیقات اور صحافتی کام شروع کیا۔ بیروت میں انہوں نے نیشنلسٹ جماعت(حرکۃ القومیین العرب) کے رسالے ’’الحُریۃ ''کے ادبی سیکشن کی ادارت کے فرائض سنبھال لیے ۔وہ المحرر کی ایڈیڈنگ بھی کرتے رہے اور سیاسی امور میں بھی پہلے سے زیادہ سرگرم ہوگئے۔ کنفانی کے جاندار فکشن اورمزاحمتی مضامین نے فلسطین کے مسئلے کو بہت جلد جلا بخشا اور وہ اس کاز کیلئے ایک توانا آواز بن گئے-فلسطینی کازکیلئے کنفانی دراصل ایک نڈرقلمی مجاہدکے طور پرابھرے یوں کہاجاسکتاہے کہ اپنی سرزمیں کی آزادی کیلئے وہ اپنے قلم سے تلوار اور دفتر سے مورچہ کاکام لیتے تھے۔ کنفانی شروع میںنیشنلسٹ سیاست کے علم بردار تھے تاہم بعد میں وہ ایک پکے مارکسی بن گئے۔ ان کے سیاسی مرشدجارج حبش نے عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین (پی ایف ایل پی )کی بنیاد رکھی توکنفانی اس نئی تنظیم کے ترجمان اورپھر سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے۔ 1969ء میں انہوں نے’’ الہدف ''کے نام سے ایک روزنامہ جاری کیا جواُن کی موت تک ان کی ادارت میں شائع ہوتارہا۔پی ایف ایل پی کے ترجمان کی حیثیت سے غسان کنفانی نے 1968ء میں آسٹریلیا کے ایک صحافی رچرڈ کارلٹن کوفلسطین کوایک مشہور انٹرویو دیا۔کارل مارکس ، ہوچی منھ ،جمال عبد الناصر اورچی گویرا کی تصویروں سے مزین اور فلسطین کے نقشوں سے منقش اپنے دفترمیں انٹرویو دیتے ہوئے کنفانی آسٹریلین صحافی کے اس سوال کہ ’’ آپ اسرائیل سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟کاجواب نہایت دوٹوک الفاظ میں دیتے ہیںکہ’’ آپ کامطلب یہ ہے کہ’’گردن تلوار سے مذاکرات کرے' ؟کنفانی وہ پہلا ادیب سمجھا جاتاہے جنہوں نے پہلی مرتبہ ادب میں’’مزاحمتی ادب‘‘ (ادب المقاومۃ) کی اصطلاح کا استعمال کیا۔ رجال فی الشمس ، ماتبقی لکم، ام سعد، عائد الی حیفا اور الشئی الآخر کے عنوانات کے تحت کامیاب ترین ناول لکھنے ساتھ ساتھ غسان نے افسانے بھی کمال کے تخلیق کیے۔’’ا لقمیص المسروق ،موت سریررقم 12، ارض البرتقال الحزین،عالم لیس لنااورلرجال والبنادق‘‘ ان کے پانچ افسانوی مجموعوں کے نام ہیں جواسی زمانے میںشائع ہوئے۔''بیڈ نمبر بارہ کی موت '' کے نام سے شفاخانے کی حالت زار اور وہاں پرداخل مریضوں کے بارے میں ان کالکھاگیاافسانہ آج بھی عربی افسانے کی تاریخ کی چند بہترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے جو نیویارک یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے نصاب میں بھی شامل ہوا۔کنفانی کا پہلا ناول رجال فی الشمس ‘‘ ہے جوانیس سوتریسٹھ کوشائع ہوا۔ان کایہ ناول جدید عربی فکشن میں ایک نیااضافہ تصورہونے لگا۔اس ضخیم ناول میں کنفانی نے تین مہاجر فلسطینیوں کا قصہ لکھا ہے جو کویت جانے اوروہاں پرایک منافع بخش نوکری کاخواب دیکھتے ہیں ۔ ناول کا نقطہ عروج کچھ ایسا ہے کہ یہ فلسطینی اپنا وطن ترک کر کے کویت جانے کیلئے غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کر نا چاہ رہے ہیں۔ وہ ایک آئل ٹینکر کے ڈرائیور کوکچھ پیسے دے کرٹینکر کی خالی ٹینکی میں چھپ جاتے ہیں۔ سفر کے دوران شدید گرمی اورحبس میں یہ قابل رحم نوجوان یکے بعددیگر موت کی منہ میں توچلے جاتے ہیں مگر گرفتاری کے خوف سے واویلا تک نہیں کرتے۔یہ ناول اس درد بھرے اور رونگٹے کھڑے کرنے والے جملوںپر ختم ہوتاہے'۔ ماتبقی لکم (جو تمھارے پاس بچا ہے )کادوسرا ناول ہے جو1966کومنظرعام پرآیا،اس ناول کوبھی نہایت پذیرائی ملی اور پوری عرب دنیا میں ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔کنفانی کا1969میں لکھاگیاناول اُم سعد( سعد کی ماں)ہے جس میں انہوں نے 1967ء میں عرب افواج کی شکست کے بعدفلسطینی تحریکوں کی مزاحمت کوفوکس کیاہے۔