وزیر اعظم عمران خان کی فرسٹریشن بلا وجہ نہیںہے۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغازبے لاگ انصاف کے نعرے سے کیا اور طاقتور اور کمزور کے لئے ایک قانون کی بات کی۔2018ء کاا نتخاب انصاف کے ساتھ احتساب کے نعرے سے جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اپوزیشن جو بھی الزام لگائے لیکن انکو بھی پتہ ہے کہ انتخابات میں انہوں نے جیتنے کے لئے الیکٹیبل کا سہارا لیا تھا اور یہی کام عمران خان نے کیا۔ الیکٹیبل سے سیانی مخلوق کہیں نہیں پائی جاتی۔ وہ بر وقت جیتنے والی پارٹی میںجانے کی حس سے مزّین ہیں اور انہیں کسی کو بتانے یا دبائو ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ کوئی نئی مخلوق بھی نہیں ہے پاکستان کی انتخابی سیاست کے یہ گھاگ کھلاڑی پاکستان کی تخلیق کے وقت سے ہیں۔ ایک دفعہ تو ایسے ہی ایک صاحب نے منتخب ہونے کے بعد پارٹی بدلنے کے طعنے پر فرمایا تھا کہ’’ہماری تو ایک ہی پارٹی ہے اور وہ ہے حکومتی پارٹی، اگر حکومت پارٹی بدل لے تو ہمارا کیا قصور‘‘۔جتنی جماعتیں حکومت میں رہیں یہ الیکٹیبل ان تمام جماعتوں میں موجود رہے۔ اب تو انکی تیسری نسل اس مرحلے سے گزر رہی ہے۔ عمران خان پاکستان کے مروجہ سیاسی اصولوں کے مطابق انتخاب جیت کر آئے ہیں اور انکو پتہ ہے کہ جس طرح سے انہیں عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے وہ در اصل انکے اس بیانیئے کی وجہ سے ہے کہ وہ بے لاگ احتساب اور قانون سب کے لئے برابر کے فلسفے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ایک سال حکومت کرنے کے بعد جب وہ بار بار اپنے ورکروں کو یہ یقین دلاتے رہے کہ کوئی این آر او نہیں ہو گا، کسی کو رعایت نہیں ملے گی، میاں نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے۔ انکے جانے کی وجہ شدید علالت ہے جس پر کوئی شک نہیںکرنا چاہئیے لیکن وزیر اعظم کی جمعہ کے روز میانوالی میں کی جانے والی تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انکے ساتھ کوئی ہاتھ ہو گیا ہے۔ تھوڑا شک تو انکی ایک ہفتہ قبل تقریر سے بھی پڑا تھالیکن انکی حالیہ تقریر اس بے بسی اور غصے کا اظہار تھی جیسے انہیں بڑا دھوکہ دیا گیا ہے۔ اگر وزیر اعظم کو بھی غلط ہیلتھ رپورٹس مل رہی ہوں یا انہیں کسی طور میاں نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ڈرایا جا رہا ہو تو یہ بہت تشویشناک بات ہے۔ ایک بار پھر اعادہ کر دوں کہ میاں صاحب کی صحت کے حوالے سے ڈاکٹروں کی بات پر پورا یقین کرنا چاہئیے۔ لیکن وزیر اعظم کی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ ان رپورٹس کے حوالے سے تصدیق و تحقیق کا حق بھی رکھتے ہیں اور اختیارات و وسائل بھی انکے پاس ہیں۔ بجائے اسکے وہ اس بارے میں اپنی جھلاہٹ کا اظہار آئے دن عوامی تقریروں میں کریں بہتر ہے کہ وہ اس بارے میں پہلے مکمل تحقیقات کر لیں۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے اور خصوصاً شریف خاندان کا حکومت سے باہر ہونے پر حکمت عملی کا، تو وہ ہر دور میں بہت کامیاب رہی ہے۔ جب تک میاں شریف صاحب حیات تھے کسی بھی ایسے موقعہ پر اپنے حکمران بچوں کی مدد کو آ جاتے تھے اور اپنے دہائیوں پر محیط تجربے اور تعلقات کی بنیاد پر دوران حکومت اور پھر اپوزیشن کے زمانے میں انکے لئے کوئی بہتر راہ نکال لیتے تھے وہ جیسے بھی پھنسے ہوں انکو کوئی نہ کوئی بہتر ریلیف مل جاتا تھا۔ انکی وفات کے بعد شریف خاندان پہلی بار کسی بڑی مشکل کا شکار ہے جس میں میاں نواز شریف کی سب سے بڑی عدالت سے نااہلی اور پھر احتساب عدالت سے سزا شامل ہے۔ اس سارے عمل کے دوران عمران خان وزیر اعظم بن گئے جو انصاف اور احتساب کے نعرے کے ساتھ پورے زور و شور سے براجمان ہیں۔ گویا حکومت کی طرف سے شریف خاندان کے لئے کسی رعایت کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔سونے پر سہاگہ یہ کہ میاں نواز شریف جب ان معاملات میں کسی طرح سے ریلیف لے سکتے تھے انہوں نے اپنی ہی حکومت کے دوران نااہل ہوتے ہی مزاحمتی سیاست کو اپنانے کا فیصلہ کیا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ تمام حکومتی اداروں کو چیلنج کر دیا۔میاںشریف ہوتے تو شاید انہیں اس نہج پر پہنچنے سے پہلے روک لیتے اور میاں صاحب شاید بہت پہلے پتلی گلی سے نکل کر جا چکے ہوتے۔ لیکن وہ اپنے مزاحمتی بیانئے پر ڈٹے رہے یہ جانتے ہوئے کہ انکے خلاف اگر ادارے نہ بھی ہوں ، جن مقدمات کا انکو سامنا ہے وہ شواہد کے لحاظ سے بہت تگڑے ہیں۔ انکا عدالتیں انصاف کے مطلوبہ معیار پر فیصلہ کر دیں تو پورے شریف خاندان کے لئے سیاست کے دروازے بند ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس بات کا ادراک کرنے میں میاں نواز شریف نے بہت زیادہ وقت لے لیا۔ میاں شہباز شریف کو اسکا احساس پہلے دن سے تھا لیکن بڑے بھائی کی اطاعت آڑے آئی جو انکی بات سننے کو تیار نہیں تھے اور چو مکھی لڑائی پر اتر آئے تھے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ مریم صفدر تھیں۔ میں کئی بار انکی سیاسی اپروچ کے بارے میں تحریر کر چکا ہوں۔ وہ بہت جارح ہیں اورپاکستان میں سیاسی معاملات طے کرنے کے حوالے سے بہت تجربہ کار بھی نہیں ہیں۔ شہباز شریف کی تمام کاوشیں تقریباً ضائع ہو جاتیں اگر میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ اس موقع پر اپنا وزن انکے پلڑے میں نہ ڈالتیں۔ انہوں نے نہ صرف میاں نواز شریف کو قائل کیا بلکہ عملی طور پر انکی علاج کی غرض سے بیرون ملک روانگی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ جب کبھی اس سارے قصے کو مورخ بیان کر پائیں گے تو باقی سب کرداروں کے نام اور کام بھی قوم کو جاننے کا موقع ملے گا۔مزاحمتی بیانئے سے شروع ہونے والا یہ کام علالتی بیانئے تک کیسے پہنچا۔ اس میں میاں نواز شریف کو تو بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی سہولت میسر آئی، سہولت کاروں کو کس قسم کے فوائد حاصل ہوئے اس بارے میں بھی تاریخ کبھی نہ کبھی بولے گی نہیں دھاڑے گی۔ وزیر اعظم جس غصے کا اظہار کر رہے ہیں اسکی بھی تب سمجھ آ سکے گی۔پردہ اٹھنے کا انتظار کریں۔