امرتا پریتم کی شخصیت میں کوئی جادو، کوئی طلسم ضرور ہے کہ وہ شخص بھی ان کے سحرمیں گرفتار ہے جس نے باقاعدہ امرتا پریتم کو نہیں پڑھا۔ بس ان کی بے پناہ مقبول پنجابی نظم کے وہی مشہور زمانہ چار مصرعے سن رکھے ہیں جو ہر جگہ بار بار دہرائے جاتے ہیں۔اَج آکھاں وارث شاہ نوں۔ کتوںقبراں وچوں بول! یا پھر کچھ لوگ انہیں ساحر لدھیانوی کے حوالے سے بھی مانتے ہیں کہ ساحر سے امرتا کے عشق کی داستان بھی نہایت افسانوی اور پرکشش ہے لیکن امرتا کی شخصیت اتنی متنوع، تخلیقی کام اتنا ہمہ جہت ہے کہ ایک کالم میں تو ان کے تخلیقی سفر اور امرتا کا بطور ایک عشق میں گُندھی عورت، عاشق اور محبوب، ایک دہشت، ایک ماں، ایک گھرداری سنبھالتی ہوئی گر ہستن، ادبی رسالے ناگ منی کی ایڈیٹر، محبت کرنے والی ساس، پوتے پوتیوں کی سپر گرینڈ مدر اور پھر ایک زود نویس لکھاری، نظم اور نثر میں بے تحاشا کام کرنے والی تخلیق کار ہیں، جو زندگی کو ایک الگ ڈھب سے دیکھتی ہے۔ انسانی رشتوں میں موجود تہہ در تہہ پڑی ہوئی نفسیاتی گنجلوں کو ایسی سہولت اور پُرکاری سے کھولتی اور اپنی تحریر میں بیان کرتی ہے کہ کیا کہنے! امرتا سے میرا پہلا واجبی سا تعارف تو وہی اس کی وارث شاہ والی درد بھری پکار سے ہوا۔ وہ طالب علمی کازمانہ تھا۔ پھر کہیں ایک آدھ افسانہ، کسی ادبی رسالے میں پڑھا۔ امرتا کی کتابیں اتنی سہولت سے میسر نہ تھیں۔ امرتا پریتم سے میرا دوسرا تفصیلی تعارف آنٹی افضل توصیف کے ذریعے ہوا۔ افضل توصیف اور امرتا میں بہناپے، درد، وچھوڑے اور ہجرت کا ایک انوکھابندھن تھا جس نے سرحد پار دونوں لکھاریوں کے دلوں کو ایک کردیا۔ اس طرح کہ امرتا ایک جگہ لکھتی ہیں کہ 1947ء میں جب میں وارث شاہ کو پکارا اور ایک درد بھری صدا لگائی، چناب لہو سے بھری ہے، ترنجنیں ٹوٹ گئیں، سہیلیاں بچھڑ گئیں، پیار کی آواز والی ونجھلی گواچ گئی، دھرتی کی ان گنت بیٹیاں بہو رو رہی ہیں۔ اس وقت میں نہیں جانتی تھی کہ آنے والے وقت میں جس عورت کا مجھے دل و جان سے قدر داں ہونا ہے وہ کون ہے۔ یہ تو بعد میں میں نے جانا کہ اس کا نام افضل توصیف ہے۔ جالندھر کے پاس سمبلی گائوں میں وہ تقسیم کے وقت وطن میں جلا وطن ہوئی۔ اس کی تین تایا زاد بہنیں عزت بچانے کے لیے گائوں کے کنویں میں کود گئیں۔ امرتا ہمیشہ سمجھتیں کہ افضل توصیف اور ان کا ہجرت کا دکھ مشترک ہے۔ تقسیم کے وقت افضل توصیف سے سمبلی گائوں چھوٹا تو امرتا بہت پہلے اپنے آبائی شہر گوجرانوالہ سے ہجرت کر کے دلی آ گئی تھیں اور پھر تقسیم نے انہیں جنم بھومی کے دیدار سے محروم رکھا۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں درد مشترک کی تصویر دیکھتی تھیں۔ یہی سانجھا دکھ اور درد کو لفظوں میں پرونا، یہ رشتہ دونوں لکھاریوں کو قریب لے آیا۔ یہاں تک کہ نوید اور آنٹی افضل توصیف دہلی میں ان کے گھر K25 حوض خاص میں کئی بار مہمان بنے۔ امروز صاحب کی پینٹنگ اور بیلوں سے ڈھکے ہوئے سرسبز گھر میں امرتا پریتم کے ہاتھ سے بنے پھلکوں، امروز صاحب کی سبزی کی بجھیا اور قرینے سے بنائی اور پیش کی گئی گرما گرم چائے کا تذکرہ نوید آج بھی کیا کرتے ہیں۔ وہ اکثر بتاتے ہیں کہ امرتا اور امروز کے گھر میں کوئی ملازم نہیں ہوتا تھا۔ رسوئی میں زیادہ کام امروز صاحب کرتے۔ مجال ہے کہ سنک میں کوئی برتن گندا پڑا رہنے دیتے۔ امروز سرتاپا امرتا کی محبت میں بھیگے ہوئے اور اس محبت کے اظہار کے رنگ لیمپوں کے شیڈ پر دکھائی دیتے جن پر امرتا کی نظموں کے ٹکڑے کیلی گرافی کی صورت نظر آتے۔ غرض امروز ہر منظر میں صرف امرتا کو ہی دیکھنا چاہتے۔ امرتا کے رخصت ہونے کے بعد جب نوید اور افضل توصیف امروز سے تعزیت کرنے گئے۔ امروز سے کہا امرتا کہیں نہیں گئی یہیں رہتی ہے اور پھر اسی انداز میں حق میزبانی نبھایا جو امرتا کا خاصا تھا۔ آنٹی افضل توصیف، اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب یہ بھی بھول گئی تھیں کہ وہ خود کون ہیں اور کہاں ہیں تو بھی جب خاموشی کے طویل وقفوں کے بعد کبھی گفتگو کرنے پر آتیں تو امرتا کا ذکر لازمی کرتیں۔ایک روز سوتی دوپٹہ، بہت نفیس کڑھائی والا، لا کر مجھے دے دیا کہ یہ امرتاجی نے انہیں آتے وقت تحفہ دیا تھا۔ افضل توصیف کی لائبریری میں امرتاپریتم کی تقریباً ہر کتاب ہے کچھ پر تو ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے جملے۔’’اپنی توصیف لئی بوہت پیار دے نال‘‘ رسیدی ٹکٹ کا پہلا نایاب ایڈیشن بھی لائبریری میں موجود ہے۔امروز صاحب کے باتھ کی بنی ہوئی تصویریں آج بھی ہماری لائبریری کی دیواروں پر آویزاں ہیں۔ وہ آنٹی افضل کے پنجابی افسانوں کو بڑے اہتمام سے اپنے ادبی پرچے ناگ منی میں جگہ دیتی تھیں۔ دونوں بڑی لکھاریوں نے ایک دوجے کے لیے محبت اور خراج تحسین کے اظہار کے طور پر ایک دوسرے کی شخصیت پر کتابیں بھی لکھیں۔ امرتا پریتم نے آنٹی توصیف پر جو کتاب لکھی اس کا نام ہے ’’دوسرے آدم کی بیٹی‘‘ اس کے ٹائٹل پر دونوں مہان لکھاریوں کی تصویر ہے۔ تصویر افضل توصیف صاحبہ نے امرتا پریتم پر اپنی لکھی ہوئی کتاب پکڑ رکھی ہے جس کا نام ہے ۔ ’’امرہستی امرتا‘‘ ٹائٹل امروز صاحب کا ڈیزائن کردہ ہے۔ تصویرکے پیچھے ان کی ایک پینٹنگ کا عکس ہے۔ امرتا نے بہت متنوع لکھا اور بہت لکھا۔ یہاں تک ایک کتاب اپنے ان خوابوں کے بارے میں بھی لکھ دی جو نیند میں دیکھے گئے۔ خوابوں کو جزئیات سے بیان کیا ہے۔ امروز اور اپنے خطوں کو بھی کتاب میں مرتب کر دیا۔ 31اگست کو اس ممتاز لکھاری کی 100ویں سالگرہ تھی جس نے اپنے پیچھے ایک شاندار وراثت چھوڑی ہے۔ کتاب کی وراثت، عشق کی وراثت، اور درد کی وراثت! ’’مٹی کی مہک جنم کے ساتھ ملتی ہے میں جس سال پیدا ہوئی وہ جلیانوالا باغ میں ہوئے قتل و خون کا سال تھا۔ اس لیے درد سے سلگتی ہوئی مٹی کی مہک مجھ میں شامل تھی‘‘(امرتا پریتم)