دہشتگردوں نے ایک بار پھر داتا دربار کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ نو برس قبل 2010ء کے گرم موسم میں داتا دربار کے اندر داخل ہو خودکش حملہ کیا گیا تھا۔ اس میں 40 سے زیادہ افراد زندگی سے بچھڑ کر موت کی وادی میں اتر گئے تھے ۔ جب کہ گذشتہ روز دہشت گردوں نے داتا دربار کے باہر کھڑی قانون نافذ کرنے والے الیٹ فورس کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 9 افراد جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ جب کہ دو خواتین سمیت 25 افراد سمیت زخمی ہیں۔ پاکستان کے ایک عرصے سے دہشتگردی سے نبرد آزما ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے ایسے خطرناک دور دیکھے ہیں جیسے شاید افغانستان اور عراق کے باشندوں نے بھی نہ دیکھے ہوں۔ مگر وہ وقت گذر گیا۔ وہ آگ اور خون کا دریا ہم نے پار کرلیا ہے۔ اب ہم اس دور میں نہیں ہیں جب ملک کا دارالحکومت اسلام آباد دھماکوں سے گونجتا رہتا تھا۔ جب لاہور دہشتگردوں کے نشانے پر تھا۔ جب کراچی جلتا رہتا تھا۔ جب پشاور میں امن کا وجود فضا میں پرزے بن کر بکھرا نظر آتا تھا۔ کوئٹہ اب بھی دہشت گردوں کے وار برداشت کر رہا ہے مگر بدامنی کی وہ کیفیت نہیں جس کے باعث نہ صرف بڑے شہروں بلکہ پورے ملک میں ہائی الرٹ جیسی صورتحال تھی۔ اس دور میں بھی اس ملک کے باشندوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ آگ بجھاتے رہے اور لاشیں اٹھاتے رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو سمجھاتے رہے کہ یہ وقت بھی گذر جائے گا۔ وہ وقت گذر گیا ہے۔ اب اس وقت کی یاد تب آتی ہے جب سانحہ پشاور کے معصوم بچوں کی برسی آتی ہے ۔ جب پھر کوئی دھماکہ ہوجاتا ہے۔ جب اس دھرتی کے لال اپنے لہو کی چادر تان کر سوجاتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں اور دنیا کے لوگ بھی مانتے ہیں کہ اب پاکستان میں دہشتگرد قوتیں آخری وار کر رہی ہے۔ مگر جب تک پورا ماحول امن کی آغوش بن جائے تب تک تکلیف تو ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے حوالے سے ہم اگر غور کریں کہ دہشگرد دو طرح کے حملے کرتے ہیں۔ حملے کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جس میں دہشتگرد عوام کو خوف کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ اکثر دھماکو ں کے پیچھے یہ ہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ کسی طرح سے عوام کو خوف کا شکار بنایا جائے اور ان پر ہر جگہ حملے کرکے یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ تمہارے ادارے تمہارا تحفظ نہیں کرسکتے۔ ملک کے اداروں پر عوام کا اعتماد ختم کرنے کی سازش بہت خطرناک سازش ہوتی ہے۔ پاکستان کے ادروں اور پاکستان کے عوام نے اس سازش کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ جب دہشتگرد قوتیں اس قسم کے حملوں کے حوالے سے ناکام ہوجاتی ہے۔ جب وہ اس حالت میں نہیں ہوتیں کہ مشکل اہداف کو نشانہ بنا سکیں تو پھر وہ آسان اہداف کو چنتی ہیں۔ ان آسان اہداف کا مقصد عوام کو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور روحانی طور تکلیف دینا ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ ہمارے درویشوں کے مزار بہت آسان اہداف ہیں۔ سندھ اس درد سے آشنا ہے۔ سندھ کے لوگ اس غم کی کیفیت کو نہ صرف سمجھ سکتے ہیں بلکہ شدت سے محسوس بھی کرسکتے ہیں کہ جب داتا دربار پر خودکش حملہ ہوتا ہے تو عام طور پر پورے پاکستان اور خاص طور پر پورے پنجاب اور پنجاب کے دل لاہور کی کیفیت کیا ہوگی؟سندھ اس صدمات کو جھیل چکا ہے۔ جب قلندر لعل شہباز کے مزار پر خودکش حملہ ہوا تھا تب پورے پاکستان میں افسوس کے سائے لہرا رہے تھے مگر سندھ اس غم میں ڈوب گیا تھا۔ اس حملے کے حوالے سندھ ایک لمحے کے لیے بھی خوف کا شکار نہیں ہوا۔ جب قلندر شہباز کے مزار میں شام کے وقت درویشی رقص یعنی دھمال ڈالی جا رہی تھی۔ اس وقت خطرناک دھماکہ ہوا اور مزار کا فرش فقیروں اور عام انسانوں کے خون سے سرخ ہوگیا مگر اس وقعے کے باوجود بھی سندھ اور سیہون کے لوگ نہیں ڈرے۔ اس شہر کے لوگوں کو معلوم تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران دو بار دھمال کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایک دھمال شام کے ڈھلتے ہوئے سورج کے ساتھ ڈالی جاتی ہے اور دوسری دھمال صبح سورج طلوع ہونے سے قبل ڈالی جاتی ہے۔ وہ شام کی دھمال تھی جس نے مزار کو مقتل بنا دیا تھا مگر اس واقعے کے بعد درد کے باعث ساری رات جاگنے والے فقیر اور قلندر شہباز کے عقیدت مند صبح کو مزار پر پہنچ گئے اور انہوں نے سکیورٹی کے باعث بند دروازوں پر دستک دینا شروع کی۔ وہ مزار کی انتظامیہ سے چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ ہمیں دھمال ڈالنے کا حق دو۔ قلندر لعل شہباز کے مزار پر ہونے والا دھماکہ اگر خوف کا باعث بنتا تو لوگ دوسرے دن کیوں آتے؟ اس بار بھی قلندر لعل شہباز کے مزار پر عقیدت مندو ںکا سمندر امڈ آیا تھا۔ حالانکہ اس بار موسم سخت گرم تھا۔ سندھ حکومت کی روایتی لاپرواہی کی وجہ سے عام لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہیں مل رہا تھا۔ مگر اس کے باوجود لوگ دیوانہ وار اپنی عقیدت کا اظہار کرتے رہے۔ وہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ اب تک ملک کی فضا پر دہشتگردی کے چھوٹے چھوٹے بادل ہی سہی مگر وہ موجود ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان مزاروں کو دہشتگرد آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ کیوں کہ اتنے سارے لوگ جن میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین اور بچے بھی ہوں ان کی ہر وقت تلاشی لینا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اس لیے دہشتگرد ان مزاروں کو نشانہ بناتے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ لوگ ڈرتے نہیں۔ یہ بڑی فتح ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں نہ صرف کامیاب ہوئے ہیں بلکہ وہ خوف کی سرحد کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اب صرف درد کی پکڑ باقی ہے۔ اس وقت درد ہوتا ہے جب کسی درویش کی مزار پر موجود معصوم لوگوں کو لہو میں نہلانے کا شرمناک منصوبہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں سیہون شریف سے لیکر لاہور میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر ہونے والے حملوں میں جتنے انسانوں کا خون بہا ہے ان انسانوں کے خون اور عوام کے معصوم عقیدوں پر کیے جانے والے حملوں کے باعث عوام میں دہشتگردوں کے خلاف نفرت کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی پیدا ہوئی ہے۔ ان حملوں کے پیچھے جو نفرت والی نفسیات موجود ہے اس کا علم اور احساس اس ملک کے عوام کے دماغوں اور دلوں میں موجود ہے۔ عام لوگ اس نفرت سے نفرت کرتے ہیں جو نفرت امن اور انسانیت کا درد دینے والے درویشوں کے مزاروں پر بارودی دھماکوں کی صورت اپنا اظہار کرتی ہے۔ داتا دربار پر ہونے والے حملے نے صرف پنجاب اور لاہور کے دل سے لہو نہیں بہایا بلکہ اس حملے کی خبر سن کر سندھ کی آنکھیں بھی آبدید ہ ہو گئی ہیں۔ سندھ کے عام لوگ پنجاب جانے کا پروگرام بناتے ہیں تو وہ یہ نہیں سوچتے کہ کس باغ میں چہل قدمی کرنی ہے اور کس مال میں شاپنگ کرنی ہے؟ اہلیان سندھ پنجاب کا رخ اس لیے نہیں کرتے کہ اورینج ٹرین کے مزے لیں یا فوڈ اسٹریٹ میں کھانے کھائیں۔ سندھ کے عام لوگ پنجاب آتے ہیں تو درویشوں کے مزاروں پر حاضری دینے اور اپنے کمزور ہونے والی ہمت کو مضبوط بنانے کی غرض سے آتے ہیں۔ داتا دربار کے سامنے دھماکے کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ ایسے واقعات درویشوں سے عقیدت رکھنے والوں کی راہ نہیں روک سکتے۔ایسے حملوں کے بعد تو ان کا دل مزار پر حاضری دینے کے لیے مچل جاتا ہے۔