میرے پیارے قارئین! میں نے پچھلے کالم میں مزدلفہ کا حال لکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ عرفات سے ہم جیسے نکلے وہ آپ پڑھ چکے کہ اکثر لوگوں کو ٹرین پر سوار ہونے کے لیے 5گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ بوڑھوں کے لیے تو یہ حشر سامانی جیسے تیسے ہم لوگ منیٰ کے سٹیشن اتر گئے۔ یہاں پل سے ایک طرف منیٰ ہے دوسری طرف مزدلفہ۔ کچھ اس طرح کی صورت حال تھی رات آنکھوں میں تیر رہی تھی تھکن سے برا حال۔ وہ دو نمازیں مغرب اور عشا کی جو ہم نے مزدلفہ آ کر ادا کرنا تھیں بہت لیٹ ادا کیں۔ ہر جگہ جماعت کا بندوبست تو نہیں تھا۔ لوگ ٹولیوں کی صورت میں جماعتیں کرواتے یا پھر اپنی اپنی۔ مکہ میں آ کر ایک مسئلہ پیدا ہوا کہ قصر پڑھی جائے یا مکمل۔ آتے ہی ہمیں بتا دیا گیا تھا کہ 89مکتب والے مدینہ سے آنے کے بعد مکہ میں 37دن قیام کریں گے تو ہم مسئلے کے اعتبار سے مقیم ٹھہرے۔ لیکن منیٰ اور عرفات جا کر لوگ کنفیوژ ہوئے کہ قصر پڑھیں یا پوری نماز۔ خیر میں ذکر کر رہا تھا کہ ہم مزدلفہ پہنچے۔ بس یوں سمجھئے کہ مصطفیٰ زیدی کے شعر کے مصداق ایسے لگا کہ کوئی کہتا ہے: انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے یہاں تو ہم اللہ کے مہمان تھے۔ اپنے خالق کے سامنے آئے، مکمل خود سپردگی سرنڈر اور عجزو انکسار۔ نوشی گیلانی کا ایک مصرع ذہن میں گونجا ’’میرے مولا تیری مرضی تو جس حال میں رکھے‘‘ آپ یقین کریں ہر طرف ناہموار زمین، کنکریاں اور پتھر۔ ہلکی پھلکی گھاس بھی کہیں ہو گی مگر رات کے اس سمے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا لوگوں کی بڑی تعدادوہاں پہنچ رہی تھی جہاں جس کو جگہ ملی بیٹھ گیا۔ پھر تھکاوٹ ایسی کہ ’’حضرتِ داغ جہاں بیٹھے وہیں بیٹھ گئے‘‘ میں، میری بیگم او ر بہن ایک چٹائی بچھا کر سستانے لگے کہ حج پر’’چلنا چلنا مدام چلنا‘‘ انسان زمین کا گز بن جاتا ہے۔ ہم پانچ پانچ گھنٹے بھی مسلسل چلے اور جو بھول گیا یا کھو گیا اس کا سفر کچھ نہ پوچھیے راستے آگے سے آگے بچھتے گئے۔ کچھ باتیں میں بعد میں کروں گا کہ ضروری ہیں کہ سعودیہ کو اپنے نوجوانوں کو انگریزی، اردو اور کچھ دوسری زبانیں سکھانی چاہئیں۔ انسانوں کا سمندر تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے لاکھوں لوگ اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم کے سامنے میدان میں اور پتھروں پر پڑے تھے۔ سچی بات یہ کہ کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا کہ بندہ کیا کرے کہ ’’رات کٹتی دکھائی نہیں دیتی‘‘۔ تھکاوٹ کے باعث کچھ آنکھ لگی جگہ کم پڑنے کے باعث خاندان کے خاندان یوں پڑے تھے کہ کسی کا سر کسی کے پائوں سے ٹکراتا تو کسی کا پائوں کسی کے سر کے ساتھ۔ سب میں ایک سپرٹ تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ عرفات کی طرح یہاں بارش نہیں ہوئی تھی۔ زمین خشک تھی۔ سمجھدار حاجی جلدی جلدی کنکریاں چن کر محفوظ کرنے لگے کہ کہیں کنکریاں ختم نہ ہو جائیں حالانکہ یہ کنکریاں شاید کبھی ختم نہ ہوں۔ بعض تو بڑے بڑے پتھر پکڑتے تھے پھر انہیں بتایا کہ چنے کے دانے سے کچھ بڑی کنکریاں کافی ہیں یہ تو ایک علامت ہے شیطان سے نفرت اور دشمنی کی۔ رات بیت رہی تھی۔ چل چل کر سارے سوتے خشک ہو چکے تھے۔ مجھے فلو بھی تھا اور میں نے مزید طبیعت کے خراب ہونے کے ڈر سے دوائی شروع کر رکھی تھی جس نے جسم کا نظام بھی کڑوا کر دیا تھا اور ایک خاص طرح کی بیزاری مگر یہ سب کچھ کے باوجود ذہن میں تھا کہ مجھے مناسک تو ادا کرنے ہیں۔ یہ آزمائشیں گزر جائیں گی۔ ایک اور تجربہ بڑا عجب تھا۔ قریب ہی وضو کا انتظام تھا اور باتھ روم وغیرہ بھی تھے۔ تہجد کے وقت بشری تقاضا پورا کرنے کے لیے لوگوں کو پھلاندتے ہوئے وہاں پہنچا تو کھلا کہ عورتوں کے لیے شاید سیٹ والے یا کموڈ والے باتھ روم تھے مگر مردوں کے لیے وہی انتظام تھا جو پاکستان میں بھی پبلک جگہوں پر ہوتا ہے۔ ’’رات کاٹی خدا خدا کر کے‘‘۔ اللہ بھی تو دیکھ رہا تھا کہ لوگ کیسے کھلے آسمان کے نیچے ناہموار جگہوں پر اس کی خوشنودی کے لیے پڑے رہتے ہیں کہ یہ صبح کی نماز کے بعد یہاں سے کوچ کریں گے۔ یہی وقوف مزدلفہ ہے۔ بہت زیادہ رش اور ناکافی جگہ کے باعث کچھ بے خبر لوگ منیٰ میں جا پہنچے۔ تہجد کے لیے لوگ اٹھے۔ میرے ساتھ ہی ایک شخص اٹھا اور کنکریاں تلاش کرنے لگا میں نے سلام کیا اور یونہی ان کا پوچھا۔ پتہ چلا کہ وہ میانوالی سے ہے میاں عطاء الرحمن خود ہی بتانے لگا کہ وہ شوگر کا مریض ہے اور گردوں کا۔ اب وہ تھک چکا ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے جوتے پہنے اور وضو کے لیے چل دیا۔ کچھ نے تہجد کی اذان بھی دی۔ اس کے بعد فجر کی اذانیں ہونے لگیں۔ جگہ جگہ ٹولیاں اپنی اپنی جماعت کروا رہی تھیں۔ منظر کچھ ایسا تھا کہ آنکھوں میں لوگ ہی لوگ بھرے ہوئے تھے۔