مکرمی !پاکستان میںلیبر قوانین تو بنے ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل یا تو اتنا سست ہے کہ اسکا فیصلہ آتے آتے مزدور ریٹائرڈ ہوجاتا ہے یا پھر پیشیاں بھگتے بھگتے اپنے حق سے دستبردار ہوجاتا ہے اگر ہم پاکستانی سیاست کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہماری قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچنے والے تمام ارکان 90 فیصد پاکستانی مزدوروں کے ووٹ سے منتخب ہوتے ہیں اور 90 فیصد پر بادشاہ بن کر حکومت کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے تو قانون بنانے اور اپنی سہولتوں میں اضافے کے لیے تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہوجاتے ہیں لیکن جب مزدوروں کے لیے قوانین بناتے ہوتے ہیں ان کی اجرت کا تعین کرنا، ان کو سہولتیں دینے کی بات ہو تو ان کو اپنی فیکٹریوں کے منافع میں کمی نظر آنے لگتی ہے اور اس سے ان کے ذاتی مفاد کو ضرب لگتی ہے اس لیے وہ قانون نہ بنتا ہے اور نہ ہی پاس ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کا مزدور چاہتا ہے کہ اس کی اجرت اور سہولتیں بہتر ہوں اور اسکی زندگی میں بھی سکون آئے تو اسے سب سے پہلے اپنے تمام اختلافات بھلا کر اپنی مزدور قیادت کو اسمبلی میں پہنچانا ہوگا۔مجھے پوری امید ہے اگر یہ قومی اسمبلی میں پہنچ جاتی ہے تو مزدوروں کا مقدمہ بہترین انداز میں نہ صرف پیش کرے گی بلکہ انکا حل بھی نکالے گی ۔(محمد شاہد کراچی)