عید آنے میں ابھی کافی دِن تھے، مگر عید کی آمد کا خیال ، پریشان کررہاتھا۔ اُس کی بیوی روزانہ فون کرکے پوچھتی ’’تنخواہ آئی؟‘‘وہ جواب دیتا ’’ابھی تو کافی دِن ہیں‘‘ آگے سے بے بسی سے کہتی ’’کب بچوں کے کپڑے جوتے خریدیں گے؟‘‘ یہ ارشد ہے، لاہور میں، فیکٹری میں ملازم ہے،رہنے والا مظفرگڑھ کا ہے۔ ماہِ رمضان شروع ہوا تو مزدوروں کو اُمید بندھی کہ تنخواہ کے ساتھ بونس بھی ملے گا ۔ مگر بونس تو رہا ایک طرف، وقت پر تنخواہ ملنے کا امکان بھی معدوم تھا۔ آج تو اُسکے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ افطاری کر سکے۔ وہ فیکٹری کے اُس طرف،سڑک کنارے،سیکڑوں لوگوں کوروزانہ افطاری کرتے دیکھتا۔ آج وہ بھی اُن کے ساتھ جابیٹھا۔ ایک شخص بولا ’’فیکٹری کے مالکان بڑے خداترس ہیں، ہزاروںلوگوں کی پورا مہینہ افطاری کرواتے ہیں۔ خدا انکے کاروبار میں مزید برکت ڈالے‘‘ روزہ داروںنے بلند آوازمیں آمین کہا۔ وہ آمین نہ کہہ سکا،تنخواہ کا خیال جو ذہن میں آگیا تھا۔