آج ہماری زندگیوں پہ قرآن جیسی لافانی ولاثانی کتاب بلکہ ’نسخۂ کیمیا‘ کا اثر اس لیے دکھائی نہیں دیتا کہ ہم نے اسے سمجھ کے پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ پوری دنیا نے اس سے استفادہ کیا۔ہمارے لوگوںکو آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ نماز کا ایک ایک لفظ دعاؤں، التجاؤں، وفاؤں اور ایفاؤں پر مشتمل ہے۔ ہم نے گریبان میں جھانک کے ’اِیاکَ نعبدُ وَاِیاکَ نستعین‘‘ والے معاہدوں کے عملی اظہار کی صورتوں پہ غور کرنے کی کبھی زحمت ہی نہیں کی۔ اقبال تو اسلام جیسی وقیع امانت ’نیم حکیموں‘ کے سپرد کرنے کے حق میں ہی نہیں تھا، جو دین کو عملی زندگی کی ترغیب و ترتیب میں استعمال کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ ہماری اس سے بھی بڑی بد قسمتی یہ ہوئی کہ ہم نے اپنی زبان میں کی گئی اقبال کی اعلیٰ ترین شاعری کو کبھیفہم میں لانے کی کاوش ہی نہیں کی۔ اقبال کا کلام ویسے تو ہمارے ہاں پہلی جماعت سے ایم اے تک کے نصابوں کا حصہ ہے لیکن طلبہ اس کو سمجھنے اور استاد اس کو سمجھانے کی بجائے نوٹس کو رَٹا لگا کے امتحان پاس کرنے کے نسخے تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کھیل کے میدانوں، سڑکوں، محلّوں کو تو اقبال سے موسوم کیا جا رہا ہے۔ اقبال ہی کے حوالے سے بڑے بڑے ادارے، اکادمیاں اور کرسیاں (Chairs) قائم ہیں، جہاں روایتی قسم کی سرگرمیوں، کارروائیوں اور کارستانیوں کے ذریعے: لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ والے مصرع کی نہایت پھرتی کے ساتھ تعمیل ہوتی ہے۔ ان اداروں اور ان میں بیٹھے دانش مندوں کو کون سمجھائے کہ یہاںکلامِ اقبال کی حرف حرف آشنائی اور مصرع مصرع تفہیم کا بندوبست ہونا چاہیے۔ یہاں کے ماہرینِ اقبال لوگوں کو بتائیں کہ دنیا میں کتنی قوموں کے انقلابات فکرِ اقبال کے مرہونِ منت ہیں۔ اس جدت،حدت، شدت سے بھرے کلام سے تو دنیا میں کہرام مچایا جا سکتا تھا۔ بے عمل قوم تو اقبال کی مخاطب ہی نہیں۔ لوگوں کو باور کرائیں کہ ’مسجد تو بنا دی شب بھر میں‘ والے مصرع میں صرف مسجد بنانے والے مخاطب نہیں، اور نہ ہی ’اقبال بڑا اُپدیشک ہے‘، اقبال کی ذاتی کیفیت کا بیان ہے۔ اقبال تو تمام عمر اس خدشے کا رونا روتے رہے کہ: اس اندیشے سے ضبطِ آہ مَیں کرتا رہوں کب تک؟ کہ مُغ زادے نہ لے جائیں تِری قسمت کی چنگاری اور سچ بات تو یہ ہے کہ مُغ زادے یہ چنگاری کب کے لے جا چکے… ہمیں لوگوں پہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ’ہمالہ‘ جیسی عظیم نظم کا اتنا تعارف کافی نہیں کہ یہ اقبال کی پہلی نظم ہے جو ۱۹۰۱ء میں شیخ عبدالقادر کے رسالے ’مخزن‘ میں چھپی اور ’بانگِ درا‘ کے ابتدائی صفحے پہ موجود ہے۔ یہ اتنا بڑا شاہکار محض فطرت کا حسنِ بیان بھی نہیں ہے؟ یہ ملکی سیاحت کے جاذبِ سماعت اشتہار سے بھی بہت آگے کی چیز ہے؟ یہ نہایت اعلیٰ درجے کی منظر نگاری کی حامل ہونے کے باوجود چیزے دیگر بھی ہے؟ اس میں بہت سی رومانیت کُوٹ کُوٹ کے بھری ہے لیکن یہ محض رومانیت کی عمومی مثال نہیں ہے؟ یہ صرف دنیا کی بلند ترین چوٹی کے ساتھ ایک بلند اقبال شاعر کا دل رُبا مکالمہ ہی نہیں، ماضی و حال کا حسرت و حیرت بھرا موازنہ بھی ہے۔اصل بات یہ کہ ان سب اوصاف کے ساتھ ساتھ یہ اس خِطے کی سنہری تاریخ اور جغرافیے کا سب سے خوب صورت اور دل دہلا دینے والا بیانیہ بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ’بانگِ درا‘ پڑھتے ہوئے ہمیں امتِ مسلمہ کے منزلِ مقصود کی جانب رواں قافلے کے کُوچ کا نقارہ سنائی نہیں دیتا۔’اَسرارِ خودی‘ اور ’رموزِ بے خودی‘ کے مطالعے سے انسانی تخلیق و ارتقا کا مقصد سُجھائی نہیں دیتا ۔ ’پیامِ مشرق‘ ہمیں مشرقی اقوام کے عزائم سے آگاہ نہیں کرتی۔ ’ضربِ کلیم‘ ہمیں عصرِ حاضر کے مسائل کے مقابل سینہ سِپر ہونے اور عالمِ کفر کے خلاف بر سرِ پیکار ہونے کا سلیقہ نہیں سکھاتی۔ ’مثنوی مسافر‘ ہمیں افغانستان کہ جس کی عالمی اہمیت کو آج پوری دنیا محسوس کر رہی ہے، سے تعلقات کی نزاکت کا احساس نہیں دلاتی۔ ’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘ اگر ہمیں موجودہ ملکی و بین الاقوامی حالات میں بھی سر جوڑکے بیٹھنے پہ نہیں اُکساتی ۔ ’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘ میں برادر ملک چین کے نہایت محدود مدت میں عالمی منظرنامے پہ اُبھرنے کی پیش گوئی دکھائی نہیں دیتی۔ ’ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘ شیطان کے چیلوں کی چالوں اور کارگزاریوں کا مزہ لینے کی بجائے، ان سازشوں کا توڑ ڈھونڈنے کا جذبہ نہیں ابھارتی۔ ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ جیسی شاہکار نظم سے ہم دھرتی پہ رہنے اور مستقبل کے امکانات پہ تفکر کرنے کے آداب نہیں سیکھتے اور: ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ بر حق جو تجھے حاضر و موجود سے بے زار کرے والی دانش بھری حقیقت میں سے گھسی پٹی عقیدتوں اور عادت کو سعادت سمجھ کے گزاری جانے والی روایتیزندگی کے خود ساختہ پنجرے سے نکل کے نئی فضاؤں میں پرواز کرنے اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے آگے بڑھنے کے نئے مواقع تلاش کرنے کا درس ازبر نہیں ہوتا ، اسے اقبال کا کلام تو بعد کی بات، پہلے اپنی حالتِ زار و قطار پہ گریبان میں سر دے کے نہ صرف غور کرنا چاہیے بلکہ دانائی کی بالائی سے اب تک محرومی پر دھاڑیں مار مار کے رونا چاہیے اور اقبال آشنائی کے دعوے کرنے والوں کو پہلی فرصت میں اقبال کے نثری و شعری افکار کی ٹھیک ٹھاک تفہیم کے ذریعے نہ صرف ’جدید اقبالیات‘ کی بنیاد رکھنی چاہیے بلکہ خودی اور مردِ مومن والے افکار کو عملی زندگی میں لاگو کرنے کے لیے ’مزید اقبالیات‘ کا ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے کہ اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر سامنے آ جائے: ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے!