ایک زمانہ تھا جب الیکٹرانک میڈیا پہ صرف پی ٹی وی کی حکمرانی تھی۔ ٹی وی سکرین پہ جلوہ گر ہونا بہت خاص بات سمجھی جاتی تھی۔ شہرت پسند شاعر ادیب تو اس کے لیے مرے جا رہے ہوتے۔ وہ کسی پروڈیوسر کو رام کرنے کے لیے خدمت و خوشامد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ایسے ہی کسی شاعر کو ہمارے ایک دوست نے پی ٹی وی کنٹین سے ایک پروڈیوسر کے کمرے کی طرف اس حالت میں جاتے دیکھا کہ اس کے ایک ہاتھ میں تام چینی والی پیلی پڑتی چائے دانی تھی اور دوسرے ہاتھ کی پانچوں انگلیوں میں کسی ماہر ’چھوٹے‘ کی طرح پانچ کپ پروئے ہوئے تھے۔ مذکورہ دوست نے یہ حیرت ناک منظر دیکھا توحیرانی، پریشانی اور روانی کو ہم آمیز کرتے ہوئے ’معروف‘ شاعر سے دریافت کیا: حضرت یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اگر کسی نے آپ کو اس حالت میں دیکھ لیا تو؟ شاعر بہادر نے پوری تن دہی اور اعتماد سے جواب دیا: ’یار یہاں تو مجھے زیادہ سے زیادہ دو، چار یا دس لوگ دیکھ لیں گے لیکن کل کلاں کو جب ٹی وی پہ آؤں گا تو پورا ملک دیکھے گا۔ ………… آج سے پچیس تیس سال قبل پنجابی ادبی تنظیم ’مجلسِ میاں محمد‘ کے کرتا دھرتا اور ٹھیک ٹھاک شاعر جناب حنیف صوفی کی جانب سے بورے والا میںکل پاکستان با معاوضہ مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جو ’ککڑا دھمی دیا‘ کی بانگ پر اختتام پذیر ہوا۔ شاعروں کی آمد و رفت کے لیے لاہور سے ایک کوچ کا بندوبست کیا گیا تھا۔ کچھ سرکار دربار سے تعلق رکھنے والے متمول شعرا نے اپنی کاروں پہ کارگاہِ شعر اور بارگاہِ صوفی میں حاضری دی۔ کوچ کے ذریعے کُوچ کرنے والے شعرا میںجناب احمد راہی، شہزاد احمد، عمران نقوی، سعداللہ شاہ، ڈاکٹر جاوید انور، وغیرہ شامل تھے۔مشاعرہ تین درجن سے زائد ’ملفوف‘ شعرا پر مشتمل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس مشاعرے پہ مَیں نے ’علی بابا، چالیس شاعر‘ کے عنوان سے کالم بھی باندھا تھا، جس پہ منتظمِ مشاعرہ تقریباً ناراض ہوتے ہوتے رہ گئے تھے۔ اس وقت کرنے کی بات یہ ہے کہ شاعروں سے لبالب کوچ جب جاڑے کی سردی اور رات کی شدید تاریکی میں واپس آ رہی تھی۔ بوریت کا عالم تھا، چونکہ سفر طویل تھا، جسے شاعری کے زور پر دلچسپ بنانے کے لیے جناب شہزاد احمد جو محافل کو اپنے فی البدیہہ جملوں سے زعفرانِ زار بنانے میں مشہور تھے، نے ہنگامی طرحی مشاعرے کی تجویز دی۔ مذکورہ کوچ جاتے ہوئے چیچہ وطنی کے راستے بورے والا پہنچی تھی اور اب واپسی پاک پتن کی جانب سے ہو رہی تھی، چنانچہ ہمارے دوست سعداللہ شاہ نے اپنی اضطراری طبیعت اور محلِ وقوع کی مناسبت سے جھٹ مطلع داغا: مَیں ہوں پاک پتن کی پتنی رہتی ہوں مَیں چیچہ وطنی ان دنوں بھاری تن و توش اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک، نیز جی دار شاعر جناب اے جی جوش لاہور کے ادبی حلقوں میں بہت متحرک تھے۔ شاعروں ادیبوں کی مالی اور غذائی معاونت کی بنا پر بعض احباب نے انھیں ادیبوں کے اے جی آفس کا لقب عطا کر رکھا تھا۔ کچھ من چلوں سے ان کی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی۔ ایک دن پاک ٹی ہاؤس میں ایک ظریف نے انھیں چھیڑنے کی غرض سے کہہ دیا: ’’جوش صاحب! مَیں نے سنا ہے کہ آپ اپنی شاعری کسی سے پیسے دے کے لکھواتے ہیں؟ ‘‘ جوش صاحب نے ایک موٹی تازی گالی دے کر میز پر پڑی اپنی کتاب’دل دیاں باریاں‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جے مَیں کسے(گالی) توں پیسے دے کے لکھواندا تے ایہو جیہا ای لکھوانا سی؟ خیر بات بس والے مشاعرے کی ہو رہی تھی، جس میں مطلع کے بعد ڈاکٹر جاوید انور نے فوری اپنے حصے کا شعر پھینکا: ہاسپٹل جائیں گے دونوں اے جی جوش اور اس کی ہتھنی یہ ساری شرارت چونکہ شہزاد احمد کی تھی، اس لیے انھوں نے اپنی باری بھگتاتے ہوئے فرمایا: اُردو میں بٹنی کہلائے اور فرانسیسی میں بتنی پھر اس کے بعد تو بقول پروفیسر عنایت علی خاں: اُبل پڑے کئی گٹر مذاق ہی مذاق میں ………… شیخوپورہ میں ایک مالدار شاعر سے متعلق مشہور تھا کہ وہ کڑیال کلاں میں مقیم بزرگ شاعر سے غزلیں خریدتے ہیں۔ مذکورہ مالدار شاعر گاہے گاہے شیخوپورہ میں ربع صدی سے قائم علمی و ادبی تنظیم ’دریچہ‘ کے پندرہ روزہ اجلاس میں تشریف لاتے اور اپنے کلامِ ’بلوغت نظام‘ سے مستفید فرماتے۔ ایک بار آئے تو کلام سنانے کی حاجت سے مطلع فرمایا۔ اجتماعی اجازت پر یوں گویا ہوئے: چھم چھم کردیاں آئیاں غزلاں جد وی اسیں بلائیاں غزلاں مطلع سنتے ہی لالہ بسمل تو ہتھے سے اکھڑ گئے، چھوٹتے ہی فرمایا: یہ کوئی شاعری ہے؟ ایسی بکواس تو مَیں پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے کر سکتا ہوں۔شاعر بھی طیش میں آ گیا۔ کہنے لگا تم اتنے ہی قابلِ ہو تو ذرا میرے سامنے کر کے دکھاؤ؟ بس پھر کیا تھا؟ لالہ واقعی پینسٹھ کلومیٹر ہی کی رفتار سے شروع ہو گئیَ ہتھاں نال بنائیاں غزلاں/پَیراں دے نال ڈھائیاں غزلاں/اوہدا کل قبیلہ شعری/پھُپھیاں، ماسیاں، تائیاں غزلاں/اوہدا کل سامان وی ادبی/تکیے، کھیس ، رضائیاں غزلاں/اوہدے رشتے دار قصیدے/اپنیاں نیں ہمسائیاں غزلاں/جد اُس طعنے مہنے دِتّے/آپاں وی رڑکائیاں غزلاں/مینوں اج بچا لَئو لوکو !/دیندیاں پھرن دہائیاں غزلاں/فیر مَیں اوہنوں دَھونوں پھڑ کے/ایدھروں، اودھروں پائیاں غزلاں………… ماسٹر الطاف شیخوپورہ کا ایک انوکھا اور نویکلا شاعر تھا، نہ صرف شاعر تھا بلکہ پھبتی کسنے میں بھی اسے مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ کسی محفل میں شیخوپورہ ہی کے بعض شاعروں کی ذات پات اور سالِ پیدائش کی ڈھنڈیا پڑی۔ طریقہ یہ چل رہا تھا کہ کسی شاعر کا نام لیا جاتا تو جاننے والے اس کے رہائشی پتے، ذات اور سالِ پیدائش کی بابت اندازے لگاتے۔ جب ایک مخصوص رنگ ڈھنگ کے شاعر کا ذکر آیا جو ماسٹر صاحب کے اپنے ہی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ آج کل لاہور میں مقیم ہیں اور حسبِ سابق شاعری، سنابری اور شہرت کے پیچیدہ مرض میں مبتلا ہیں، تو ماسٹر صاحب نے فوراً ہاتھ کھڑا کیا اور پوچھنے پر ایک مختصر سا جملہ کہا جس میں اس شاعر کی ذات، اوقات، مزاج سب شامل تھا، جملہ تھا: انیس سَو مراسی