ادیب شہیر صاحبزادہ پیر محمد محب اللہ نوری دعائے خیر اور تعزیت کے لیے تشریف فرما ہوئے، تو سفر نامہء شام و اردن کا ایک نسخہ بھی ہمراہ لائے، قبل ازیں ’’سفرِ محبت‘‘ اور ’’چند روز مصر میں ‘‘صاحبانِ فکر و فن سے تحسین و تبریک حاصل کر چکے،جو حسین و جمیل مناظر اور دلکش ورعنامظاہر سے آراستہ ہیں، ویسے تو آپ مصنفِ کتبِ کثیرہ ہیں اور تصنیفات و مطبوعات کی تعداد تقریباً تین درجن سے زائد ہے، لیکن آپ کے سفر نامے اس اعتبار سے بہت معتبر اور منفرد ہیں کہ انہوں نے سینہ گزٹ اور صدری روایات کی بجائے تحقیق و تفحص کا اہتمام کر کے ہر بات کو دلائل و شہادت سے موقر و معتبر بنایا ہے،وہ محض سیر و سیاحت اور کوچہ گردی پر یقین نہیں رکھتے،بلکہ اپنے سفر میں قدیم تاریخ اور تمدن کی پرتیں کھولتے اور قاری کو ان شہروں اور خطّوں کے جدید تہذیبی رنگ کے ساتھ قدیم تاریخ سے بھی آگاہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے روزمرہ کے امور اورذمہ دارریاں مختلف النوع ہیں، بہت بڑی علمی میراث کے امین و علمبر دار ہیں، فکرِ رسا کے حامل، اجتہاد و افتاء کے ماہر، شعرو سخن میں معتبر، عقائدو افکار میں اسلاف والی راسخ العقیدگی، تصوّف و طریقت میں صوفیاء والی خوش اعتقادی،اہلِ بیت ِاطہار سے محبت کے داعی اور مرتضی مشکل کشا، مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم جیسی وقیع اور محبت آمیزتصنیف کے مصنف، تعمیرات و ترقیات کے جوئیہ---کہ اپنے والد گرامی حضرت فقیہ العصر کے علمی و دینی دائر ے اور حلقے کو نہ صرف منضبط اور مستحکم، بلکہ مزید وسعتوں سے سرفرازکرتے ہوئے، ان کے نورِ بصیرت کی افزودگی میں ہمہ تن مصروف عمل اور سب سے بڑھ کر ماہانہ ’’نو رالحبیب‘‘ کو اس کے نظام الاوقات اور معیار کے مطابق اشاعت پذیر رکھے ہوئے ہیں، اور ان سب ہمہ پہلو مصروفیات کے باوصف کسی ایک شعبہ میں بھی کمی یا سقم اورکمپرومائزتقریباً نا ممکن اور اپنی خاص اْفتاد اور رفتار کے مطابق سرگرمِ سفر۔۔زہے نصیب کہ مجھے حضرت صاحبزادہ کا عطایہ ’’سفر نامہ شام و اْردن‘‘ان دنوں میسر رہا، جب حضرت داتا گنج بخشؒ کے سالانہ عرس کی علمی، تحقیقی تقریبات و روایات کی تزئین و ترتیب روبہ عمل تھی، اور میں شام کے اْن علاقوں کی کھوج میں مستغرق ہوگیا، جہاں کہیں حضرت الامام الشیخ الہجویرؒ کے پیرو مرشد حضرت ابو الفضل خْتّلی سرزمینِ شام کے اْس عظیم تر پہاڑ جو’’ کوہِ لْکام‘‘ کے نام سے معروف، میں قیام فرما رہے۔ عجب اتفاق کہ ہر دو عظیم المرتبت پیر اور مرشد کے احوالِ زندگی ازحد کمیاب ہیں، اور ان کے طرزِ زیست، اسلوبِ حیات اور احوال و افکار کے نقوش کشف المحجوب کے بنیادی ماخذ کے سوا کہیں سے میسر نہیں،حضرت داتا صاحبؒ کے شیخ و پیشوا حضرت ابو الفصل خْتّلیؒ کا آبائی مسکن، سرزمین خْتّل تھا۔ جو آج کے سینٹرل ایشیا اور قدیم زمانے کے خر اسان یا بلادِ ماورء النہر کا ایک تاریخی شہر اور خراسان کے معروف علاقوں بلخ، سمر قند و بخارا کی طرح کا قریہ فکر و فن تھا۔ قدیم خراسان کے کچھ علاقے اب ایران اور کچھ افغانستان میں شامل ہوچکے ہیں، اسی طرح ترکمانستان اور تاجکستان کے بعض علاقے بھی قدیم خراسان کا حصہ تھے، ایسے ہی ماورء النہر ہے، جس کے لفظی معنی ہیں، دریا کے پیچھے یا دریا کے اس طرف، اسے دریا ئے جیجون یا دریائے آمو بھی کہتے ہیں، لیکن الشیخ خْتّلیؒ نے اپنی زندگی کا غالب حصّہ ابدالوں کی بلند تر سرزمین، کوہِ لْکام کی وادی میں تنہا اور گمنام رہ کر یادِ الہٰی میں بسر کیا اور اسی پہاڑ کی ایک غیر معروف بستی ’’بیت الجن‘‘ میں آرام فرما ہوئے، جو شام کے دارالحکومت دمشق اور ساحلی شہر بانیاس کے درمیان واقع ہے۔ اسی بیت الجن میں ہی، حضرت داتا صاحبؒ کے زانو پر سر رکھے ہوئے، وہ اللہ کو پیارے ہوئے، اور یہیں آپؒ کا مدفن اور مزار شریف ہے۔ حضر ت الشیخ الخْتّلیؒ نے نوے برس سے زائد عمر پائی، اور مرجع خلائق رہے۔حضرت الشیخ الہجویرؒ نے اپنے اس شیخ طریقت کے ذکر ِ خیر سے آراستہ فصل کا آغاز محبت آمیز پیرائے میں، سجع اور قافیہ کی عبارات سے کرتے ہوئے انہیں، زین اوتاد و شیخ عباد، کے القابات سے یاد کیا ہے۔ آپؒ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ میں ایک دن اپنے شیخ کو وضو کراتے وقت۔۔۔ جب پانی آپؒ کے ہاتھوں پر پڑرہا تھا،دل میں خیال آیا کہ ولایت و بزرگی اور علم و عرفان کی دنیا میں جو مقام اللہ نے مقدر فرمایا ہے، وہ تو قسمت سے مل ہی جانا ہوتا ہے، تو پھر بزرگوں اور استادوں کی یہ خدمت اور غلامی کیوں؟یہ خیال آنا تھا کہ مرشد کو بذریعہ کشف معلوم ہوگیا،مگر کسی سرزنش کے بغیر اور مرید کو شرمندگی سے بچاتے ہوئے، نصیحت اور تسلی کے انداز میں فرمایا: ’’دیکھو بیٹا!جب کسی گنوار،پسماندہ گھرانے کے بچے کو اللہ تعالیٰ ولایت اور کرامت کا تاج پہنا نا چاہتا ہے، تو وہ ایسے بچے کے دل میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ کی محبت واحترام اور خدمت کا جذبہ ڈال دیتا ہے، چنانچہ وہ اس خدمت اور اطاعت سے مقامِ بلند حاصل کرلیتا ہے۔‘‘ حضرت داتا گنج بخشؒ شام کے اعلام و تصوّف سے ازحد قربت کے حامل تھے، انہوں نے اپنے پیرو مرشد کے علاوہ، شام کے اہل ِ تصوّف و طریقت کی صحبتیں بھی اٹھائیں۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ہجویر بغدادی کی نسبت، دمشق سے زیادہ انس اور محبت محسوس کرتے ہیں۔ دمشق میں حضرت بلا لؒ کے مزار پر، انہوں نے حضرت امامِ ابو حنیفہؒ کے متعلق جو خواب دیکھا، جس میں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بازوؤں میں ہیں، جس سے،وہ ان کی علمی و فقہی جلالت و عظمت کے ازحد معترف ہوئے، حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت بلالؓ کے مزار پر حاضر ی کے موقع پر، اس واقعہ کو تازہ کیا ہے، آپؒ لکھتے ہیں: واقفِ رموزِ خفی و جلی، حضرت سیّد علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ نے بھی حضرت سیّدنا بلالؓ کے مزار پر حاضری دی --- اور جانے کتنے ہی اقطاب واغواث اور اولیاء واصفیاء یہاں حاضری دیتے اور مستفیض ہوتے رہے ہیں ---حضرت داتا صاحبؒ اپنی ایک حاضری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ایک مرتبہ شام میں موذن ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیّدنا بلالؓ کے مزارِنور کے پاس سورہا تھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ؐ مسجد حرام کے بابِ ابی شیبہ سے داخل ہورہے ہیں، آپ ؐ نے ایک معمر شخص کو بچوں کی طرح نہایت شفقت و محبت سے پہلو میں لیا ہوا ہے، دیکھتے ہی میں فرطِ محبت سے دوڑا اور سرکارؐ کے پائے اقدس کو چوما اور دست بوسی کی--- میں سوچ رہا تھا کہ یہ خوش نصیب کون ہے، جسے سرکارصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینہ سے لگایا ہوا ہے؟--- حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے دلی خیال سے مطلع ہو کر از خود فرمایا: ایں امامِ تو واہلِ دیارِ تست--- ’’یہ تیرے اور تیرے علاقہ کے لوگوں کے امام ابو حنیفہؒ ہیں ---‘‘ ہماری یہ خوش بختی تھی کہ ہمیں (2جنوری 1998ء کو پہلی بار)اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،موذنِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقربِ بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیّدنا بلالؓ کی بارگاہ میں حاضری میسر آئی ۔