چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں قائم انتظامی کمیٹی نے مسلم لیگ ن کے قائدنواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ارشد ملک نے دسمبر 2018ء کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں منی ٹریل فراہم نہ کرنے پر سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ’’میاں نواز شریف بدعنوانی کے مرتکب ہوئے۔ نواز شریف ہل میٹل کے بینیفشل اونر ہیں‘وہ ثابت نہ کر سکے کہ ہل میٹل سے ملی رقم اور ہل میٹل ان کے ذرائع آمدن کے مطابق ہیں‘‘اس فیصلے کے بعد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’’نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا دینے کے لئے ان پر دبائو تھا‘‘۔ یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مریم نواز اور ان کی جماعت نے فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے۔ معاملہ سامنے آنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ارشد ملک کو ان کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے احتساب عدالت کے جج کے طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد ارشد ملک نے ایک بیان حلفی داخل کرایا۔ اس بیان حلفی میں انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز سے ملے۔ حسین نواز نے انہیں مدد کے بدلے 50کروڑ ‘ خاندان کو بیرون ملک منتقل کرانے اور کاروبار کی پیشکش کی۔ جج ارشد ملک نے نواز شریف سے جاتی عمرہ میں ملاقات اور ن لیگ کے کارکن ناصر بٹ سے مسجد نبوی کے باہر ملاقات کا اعتراف بھی کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ارشد ملک کے بیان حلفی کو اعتراف جرم قرار دیا۔ اس معاملے کی سنگینی اس لحاظ سے بڑھ جاتی ہے کہ ارشد ملک نے ان ملاقاتوں کے متعلق اعلیٰ حکام کو اطلاع نہ دی۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اپنی ویڈیو سامنے آنے کے بعد 16جولائی 2019ء کو ایف آئی اے کو ایک درخواست دیتے ہوئے کہا کہ سائبر کرائمز کی شقوں کے تحت ان کی ویڈیو بنانے کے حوالے سے مقدمہ درج کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے نے ایک ملوث ملزم طارق محمود کو گرفتار کیا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تب ریمارکس دیے تھے کہ نواز شریف کی رہائی اور سزا کے خاتمے کے لئے ویڈیو اس وقت فائدہ مند ہو گی جب کوئی درخواست دائر کی جائے گی۔ ارشد ملک کو ملزمان سے ملنے اور مس کنڈکٹ کے اعتراف میں برطرف کیا جانا پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ججز کے رویے اور ان پر لگائے گئے مختلف نوع کے الزامات پر اکثر کسی طرح کی کارروائی نہیں ہوتی رہی۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج ملک عبدالقیوم کے متعلق ایسی آڈیو منظر عام پر آئی جس میں احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمان اور شہباز شریف ان سے تقاضا کر رہے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کو تاحیات نااہل کرنے کا فیصلہ دیں۔ملک قیوم کی آواز صاف طور پر سنی جا سکتی ہے کہ وہ دبائو ڈال کر من پسند فیصلہ لینے کی خواہاں دونوں شخصیات کے ساتھ کس عاجزانہ لہجے میں بات کر رہے تھے۔ یہ ایک معاملہ ہے ایسے بہت سے واقعات ہیں ۔ قانونی ماہرین کی زیادہ تر توجہ اس نکتے پر ہے کہ احتساب عدالت کے جج کی برطرفی کے بعد کیا نواز شریف کے خلاف دیا گیا العزیزیہ کیس کا فیصلہ ازسر نو سماعت کے مرحلے سے گزرے گا؟اس سلسلے میں درست اور قانونی گنجائش کے متعلق قانونی ماہرین رہنمائی کر سکتے ہیں لیکن ایک بات جو فہم عامہ کے ضمن میں آتی ہے کہ جس جرم کی پاداش میں احتساب عدالت کے جج کو سزا سنائی گئی اس میں دبائو اور رشوت کی پیشکش کرنے اور ویڈیو بنانے والوں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ پھر ارشد ملک کے فیصلے کو دبائو کا نتیجہ قرار دینے کی ضد کرنے والے حلقوں کو اس بات کا جواب بھی دینا پڑے گا کہ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں اس جج کی طرف سے نواز شریف کو بری کرنے کا فیصلہ نظرثانی میں جائے گا؟ جج ارشد ملک کو مس کنڈکٹ کا مرتکب ثابت ہونے پر سزا خوش آئند ہے تاہم اس سلسلے میں کچھ اقدامات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ دبائو ڈال کر فیصلے لینے کی روایت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ججز کی سکروٹنی کا عمل سخت کیا جائے‘ججز کی تقرری کا نظام شفاف اور بہتر بنایا جائے۔ ایسے اقدامات سے ہی عدلیہ کا وقار بحال کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے ارشد ملک کی برطرفی کے فیصلے پر اظہار مسرت کیا ہے ۔مسلم لیگ ن کی طرف سے مٹھائی تقسیم کی گئی۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ کھیل کے ایک کردار کو سزا ہوئی دوسرا کردار مریم نواز ہیں۔ انہیں سزا ہونا باقی ہے۔ اس معاملے پر سیاست بازی جاری رہ سکتی ہے لیکن یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اب اس دور کا خاتمہ ہو رہا ہے جب ججز کو بلیک میل کر کے مرضی کے فیصلے لئے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں عدلیہ کا خود احتسابی نظام متحرک ہوتا دکھائی دیتا ہے۔