نجم حسین سید پنجابی زبان و ادب کے نامور ادیب ہیں۔ ان کی تصانیف دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہیں۔ یہ فقیر منش انسان سول سروس کے اعلیٰ عہدوں پرفائز تھا تو ویگن اور بس پر سفر کرتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کو نجم حسین سید ہی نے سنوارا اور نکھارا۔ شہرت، پی آر اور سرکاری اعزازات سے بے نیاز سید صاحب ایک ڈرامے میں عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ ایک غریب، بے کس عورت تھانے میں زمین پر بیٹھی ہے۔ پولیس کے تشدد کا شکار، زخموں سے چور ہے۔ سر سے خون بہہ رہا ہے۔ بازو کٹے پھٹے ہیں۔ ایک پولیس والا سر پر کھڑا ہے اور مسلسل گالیاں دے رہا ہے۔ اتنے میں وہاں سے مولوی صاحب کا گزر ہوتا ہے ۔ عورت کو دیکھتے ہی ان کا پارہ آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔ ’’خدا کا خوف کر، بے حیا عورت، ننگے سر بیٹھی ہے؟ سر پر دوپٹہ اوڑھ ورنہ جہنم کا ایندھن بنے گی۔‘‘ یہ سب کچھ یوں یاد آیا کہ اسلام آباد شہر وہ بے کس عورت ہے جو زخموں سے چور ہے۔ پھٹا ہوا ہے۔ بازوئوں سے خون رس رہا ہے۔ پنڈلیوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔ پائوں مڑ گئے ہیں۔ ہاتھوں کی انگلیاں ٹیڑھی ہو گئی ہیں۔ اس غریب بے بس بے کس کو شہر کا ادارہ ترقیات یعنی سی ڈی اے لعن طعن کر رہا ہے کہ بے حیا بے شرم جہنمی عورت۔ سر ڈھانک ورنہ دوزخ کی آگ کا ایندھن بنے گی۔ کچھ عرصہ پہلے جب عدالت عظمیٰ نے ایل ڈی اے کو کرپٹ ترین ادارے کا خطاب دیا تھا تو اس کالم نگار نے سی ڈی اے کو مشورہ دیا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے خلاف نالش کرے۔ یہ اعزاز تو سی ڈی اے کا ہے۔ تازہ ترین اطلاع خبر رساں سیاروں نے یہ بہم پہنچائی ہے کہ سی ڈی اے بہادر کو دارالحکومت کے ’’ماسٹر پلان‘‘ کی اچانک فکر لاحق ہو گئی ہے۔ اتنی فکر کہ بے چارہ سی ڈی اے رشوت، کرپشن، نااہلی اور بددیانتی میں غرق، دبلا ہو گیا ہے۔ پسلیوں کی ہڈیاں دور سے شمار کی جا سکتی ہیں۔ ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ قیامت یقینی ہے، صور پھونکا جائے گا تو مردے ہڑ بڑا کر اٹھیں گے۔ ایسے میں سی ڈی اے سانپوں بچھوئوں بھری قبر سے نکلے گا تو زبان گز بھر لمبی ہو گی اور چیخ رہا ہوگا۔ ’’ماسٹر پلان، ماسٹر پلان‘‘۔ اس ماسٹر پلان کو بنانے والے دنیا کے معروف معمار نے تلقین کی تھی کہ شہر زلزلے کے خطرات سے دوچار رہے گا۔ فالٹ لائنز پر ہے۔ اس لیے عمارتوں کے درمیان اتنا فاصلہ ضروری ہے اور کوئی عمارت اتنی منزلوں سے زیادہ اونچی نہ ہو۔ ان ہدایات کے پرخچے اڑ گئے۔ سی ڈی اے کو کبھی ماسٹر پلان یاد نہ آیا۔ پلاٹوں کی بندر بانٹ کا آغاز مرد مومن مرد حق نے کیا، پھر بعد کی نام نہاد سیاسی حکومتوں نے اس کار قبیح کو اوج ثریا تک پہنچا دیا۔ ایسی ایسی غلط بخشیاں ہوئیں کہ الامان والحفیظ۔ سی ڈی اے کو ماسٹر پلان نہ یاد آیا۔ کس کو نہیں معلوم کہ آج جہاں نام نہاد ’’اشرافیہ‘‘ کے کھرب پتی ارکان فارم ہائوسوں کے اندر محلات میں بیٹھے ہیں، وہ فارم ہائوس سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے بنے تھے۔ اعظم سواتی کا معاملہ سامنے آیا تو معلوم ہوا اشرافیہ بر وزن بدمعاشیہ نے تجاوزات بھی سمیٹ رکھے ہیں۔ سی ڈی اے نے چوں تک نہ کی۔ بلکہ دست بستہ کھڑا منمناتا رہا۔ سینکڑوں مدارس غیرقانونی بن گئے۔ اس کالم نگار نے انہی گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ گندے نالے پر غیرقانونی مسجد بنائی گئی، جہاں نماز کے دوران بدبو چھائی رہتی ہے، ساتھ نام نہاد مدرسہ بن گیا۔ سی ڈی اے غائب رہا۔ بنی گالہ میں ایک بطل جلیل نے ناجائز تعمیر کا آغاز کیا۔ آج وہاں پورا شہر آباد ہے۔ سی ڈی اے نے ہونٹ سئیے رکھے۔ کورنگ دریا جس کا پانی کبھی آئینے کی طرح شفاف تھا، آج ٹنوں کے حساب سے غلاظت بہا رہا ہے۔ اس کے کناروں پر ہزاروں غیرقانونی رہائش گاہیں سی ڈی اے کا منہ چڑا رہی ہیں۔ نئے اسلام آباد ایئرپورٹ کے قرب و جوار میں چار سو سے زیادہ ہائوسنگ کالونیاں غیرقانونی قرار دی جا چکی ہیں۔ دارالحکومت کے عین وسط میں پورا سیکٹر جی بارہ (G-12) غیرقانونی ہے۔ اس کے اندر جرائم کے قلعے ہیں۔ چوروں، ڈاکوئوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ یہ وہ سہراب گوٹھ ہے جو دارالحکومت کے اندر یوں محفوظ ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ اسلام آباد کا شہر دو خوفناک مادر پدر آزاد آبادیوں کے درمیان سینڈ وچ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف ترنول دوسرے کنارے پر بہارہ کہو۔ دونوں غیر ملکیوں سے چھلک رہے ہیں۔ سی ڈی اے کی جوتی کو بھی پروا نہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کی زمین قبضہ مافیا نے ہتھیا لی۔ کیا سیاست دان کیا پراپرٹی ڈیلر، سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ سی ڈی اے ان ساٹھ برسوں میں بھنگ پی کر سویا رہا۔ بھنگ بھی وہ جس میں غلیظ ترین نشوں کی اضافی آمیزش تھی۔ ساٹھ برسوں سے شہر کا قدیمی ہسپتال پولی کلینک سی ڈی اے کے سامنے گڑ گڑا رہا ہے کہ اضافی زمین دے دے۔ ساتھ ارجنٹائن پارک ہے جو بدصورتی کا مرقع ہے۔ سی ڈی اے اس پارک کو سنوارتا ہے نہ ہسپتال کو یہاں تعمیر کی اجازت دیتا ہے۔ شہر غلاظت کا گڑھ بن گیا ہے۔ یہ کالم نگار سی ڈی اے کو ان سطور کے ذریعے چیلنج دیتا ہے کہ میلوڈی مارکیٹ اور فوڈ مارکیٹ کے علاقے سے زیادہ غلیظ کوئی اور جگہ ہو تو دکھا دے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا، ماسٹر پلان محفوظ کا محفوظ رہا۔ سی ڈی اے کنڈلی مارے سویا رہا مگر اے دارالحکومت کے شہریو! اے اہل پاکستان، اب ہوشیار ہو جائو کہ سی ڈی اے جاگ اٹھا ہے۔ اب یہ سانپ پھنکار رہا ہے، زہر بھری زبان بار بار دبانے سے باہر نکالتا ہے اور پھر اندر کرتا ہے۔ اب اسے ماسٹر پلان کی فکر آن پڑی ہے۔ اس لیے کہ وزیراعظم نے وزیراعظم ہائوس میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ستر سال بعد سی ڈی اے کو یاد آیا ہے کہ ایک ماسٹر پلان بھی ہے اور اگر یہ یونیورسٹی بن گئی تو ماسٹر پلان مجروح ہو جائے گا۔ سی ڈی اے نے حکومت کو بتایا ہے کہ انتظامی عمارت میں یونیورسٹی نہیں بن سکتی۔ سبحان اللہ۔ سی ڈی اے پر قربان ہو جائوں۔ پھر دوبارہ زندہ کیا جائوں۔ دوبارہ قربان ہو جائوں۔ ہزاروں رہائشی عمارتوں میں کاروبار چل رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے کلینک، بیوٹی پارلر، دکانیں، کمپنیوں کے دفاتر، ماسٹر پلان کو کچھ نہیں ہوا۔ سینکڑوں پرائیویٹ سکول رہائشی مکانوں میں قائم جہالت پھیلا رہے ہیں۔ ماسٹر پلان محفوظ رہا مگر وزیراعظم ہائوس میں یونیورسٹی سنانے سے ماسٹر پلان کو آگ لگ جائے گی۔ وزیراعظم صاحب! یونیورسٹی کے منصوبے پر تین حرف بھیجئے۔ سی ڈی اے کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہ لیجئے۔ یہاں مساج سنٹر کھولیے یا اسے مجرا گھر میں بدل دیجئے۔ پھر تماشہ دیکھیے، پھنکارتا سانپ کنڈلی مار کر دوبارہ کیسے سوتا ہے ؎ ان موذیوں پہ قہر الٰہی کی شکل میں نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم