روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایک نجی پروڈکشن کمپنی نے مسجد وزیر خان میں ریکارڈنگ کے لئے وضع کئے گئے قواعد و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے رقص اور قابل اعتراض عکسبندی کی ہے۔ مقدس مقامات سے عقیدت اور احترام پاکستانیوں کے ایمان کا حصہ ہے۔مقدس مقامات کی بے حرمتی کی پاکستانی قانون میں گنجائش ہے نہ ہی معاشرتی اقدار ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہیں ۔پاکستان جہاں اقلیتوں کے مقدس مقامات کا احترام کیا جاتا ہے ایسے میں مسجد کا کسی مسلمان کے ہاتھوں تقدس پامال ہونا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت امر ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ مغلیہ دور کی تاریخی مسجد وزیر خان میں عسکبندی کی باضابطہ اجازت لی گئی تھی ۔مساجد کو فلموں میں دکھانا قابل تعریف ہے مگر مسجد کے تقدس کا احترام پروڈکشن کمپنی کی ذمہ داری تھی جس انتظامیہ نے عکس بندی کی اجازت دی اسکا بھی فرض تھا اس کے اہلکار مسجد کے تقدس کو قائم رکھنے کے لئے ضروری اقدامات کو یقینی بناتے ۔بدقسمتی سے متعلقہ افراد کا اس مجرمانہ سرگرمی پر خاموشی اختیار کئے رکھنا باعث شرم ہے۔ اب جب کہ سیکرٹری اوقاف نے ڈی جی اوقاف کو ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے تو بہتر ہو گا ڈی جی نہ صرف پروڈکشن کمپنی کے خلاف سخت کارروائی کریں بلکہ اس مذموم فعل میں ملوث محکمہ اوقاف کے اہلکاروں بالخصوص خطیب کو بھی قانون کے مطابق سزا دیں تاکہ مستقبل میں کسی کو عبادت گاہوں کا تقدس پامال کرنے اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی جرات نہ ہو سکے۔