کچھ برس پیچھے چلے جائیں جب پی ٹی وی کا دور تھا۔ ہماری خوبصورت صبحوں پر ابھی مارننگ شوز‘ کا سایہ نہ پڑا تھا بلکہ صبح کی نشریات ۔ چاچا جی مستنصر حسین تارڑ کے سنگ صبحوں کو روشن کرتی تھیں۔ وڈی دا وڈ پیکر اور پنک پنتھر کے کارٹون دیکھ کر سکول جایا کرتے۔ انہی دنوں میں اکثر صبح کی نشریات میں بھی ایک سرائیکی خوش رو گلوکارہ کی ایک غزل کا بہت چرچا ہوا۔ گل بہار بانو اس خوش گلو‘ صفینہ کا نام تھا۔ اور اس کا ایک خاص انداز تھا۔ گائیکی کے دوران ایک منی موہنی‘ بے ساختہ سی مسکراہٹ کبھی دھیمی‘ کبھی گہری‘ ہونٹوں پر سجائے رکھنا کھلے ہوئے لمبے بال پشت پر پڑے رہتے اور وہ بڑے چائو سے گاتی۔ ؎ چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری گل بہار بانو نے اور غزلیں اور گیت بھی گائے ہوں گے لیکن یہ تو اس طرح اس کے نام کاحصہ بنی کہ گل بہار بانو کا نام ذہن میں آتے ہی ایک تان سے اٹھتی ہے۔ چاہت کیا‘ دنیا داری‘ عشق میں کیسی مجبوری۔!اسی خوش رو‘ اور خوش گلو‘ گل بہار بانو کی خزاں رسیدگی خبر‘ دل کو بے طرح اداس کر گئی۔ زوال تو ہر شے کو ہے حسن‘ جوانی‘ بہار۔ سو گل بہار بانو ہی اسی زوال کی نذر ہوئی ہے۔ سدا نہ باغیں بلبل بولے‘ سدا نہ باغ بہاراں سدا نہ رہندا حسن جوانی‘ سدا نہ صحبت یاراں اسی زوال کا اشارہ احمد مشتاق اپنے اس شعر میں کرتا ہے: دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے! سو عروج کے بعد زوال‘ جوانی کے بعد بڑھاپا۔ بہار کے بعد خزاں ایک تبدیلی کا سفر تو قدرت کے فطری بہائو میں موجود ہے۔ لیکن پھر بھی زوال کی کچھ صورتیں۔ اتنی ’’زوال آثار‘‘ دکھائی دیتی ہیں کہ دل کو تکلیف ہوئی ہے۔ گل بہار بانو کے بارے میں جو خبر آئی اور اس خبر کے ساتھ جو تصویر تھی جس میں وہ اپنی پرانی تصویر سے قطعاً نہیں مل رہی تھی۔ نوے کی دھائی کی وہ گل بہار ایک کامیاب سریلی گلو کارہ جس کی آواز و انداز کے لاکھوں چاہنے والے تھے۔اس کی زندگی کامیابیاں‘ محبتیں ‘ شہرت اور عروج سمیٹ رہی تھی اور دوسری تازہ تصویر میں وہ شہرت ‘ عروج‘ اور خوبصورتی سے کوسوں دور‘ کسی کھوئی ہوئی منزل کی طرح بے نام‘ اور گمنام شیزہ فرینیا کی مریضہ کی صورت ہے۔ جس کو اس کے بھائیوں نے مبینہ طور پر کمرے میں قید کر کے رکھا تھا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ خبر بتاتی ہے اسے پولیس نے بازیاب کرایا۔ اس کی ذہنی حالت تقاضا کرتی ہے کہ ذہنی امراض کے ماہرین سے اس کا باقاعدہ علاج کروایا جائے۔ زندگی دیکھیے کیسے کیسے رنگ بدلتی ہے اور ایک ہی زندگی میں انسان کئی زندگیاں جیتا ہے۔ عمر کے نوشہ خانے میں پڑے ہوئے شب و روز پر کہیں عروج لکھا ہے کہیں زوال‘ کہیں خوشی اور کہیں رنج و ملال۔ کہیں محفلیں آباد ہیں تو کہیں چراغوں کا دھواں اور روح کو کاٹتی تنہائی ہے اور پھر ایسے لوگوں کے لیے وقت کا یہ بدلا ہوا انداز کس قدر روح فرسا ہوتا ہو گا جنہیں چاہے جانے اور شہرت کے فریب کی عادت ہو۔ ایک ہی زندگی میں کئی زندگیاں جھیلتی ہوئی روحی بانو بھی میں نے دیکھی جن دنوں وہ فائونٹین ہائوس میں زیر علاج تھی۔ ایڈیٹر میگزین نے ماضی کی ممتاز اداکارہ روحی بانو کے انٹرویو کی اسائنمنٹ دی۔ اگرچہ روحی بانو کے عروج کا زمانہ میں نے تو نہیں دیکھا تھا لیکن یہ وہ سپر سٹار تھی ٹی وی کی جس کی شہرت نے اس کے بعد آنے والی کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ روحی بانو کے اصل عروج کا وقت وہ تھا جب پی ٹی وی پر بلیک اینڈ وائٹ ڈرامے لگا کرتے تھے۔ خیر میں روحی بانو سے ملنے اپنے فوٹو گرافر عارف نجمی کے ہمراہ فائونٹین ہائوس پہنچی ڈاکٹر ہارون رشید سے ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ وہ کسی سے ملنا پسند نہیں کرتی۔ بعض اوقات اس کا رویہ بہت شدت پسندی لیے ہوئے ہوتا ہے میں نے جواباً کہا میں اسے ہینڈل کر لوں گی آپ بس مجھے ملوا دیں۔ فائونٹین ہائوس میں عورتوں کے بلاک کی اوپری منزل پر روحی بانو کا کمرہ تھا۔ میرے ساتھ فائونٹین ہائوس کی ایک خاتون اہلکار تھیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کمرے میں روحی بانو اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی اور اسے بتایا گیا تھا کہ اس سے ملنے کے لیے اخبار کے لوگ آ رہے ہیں۔ کمرے میں لوہے کا ایک بیڈ تھا۔ ایک لماری جس میں ماضی کی حسین اور ممتاز اداکارہ نے اپنے دو جوڑے کالے رنگ کے ایک شاپر میں ڈال کر رکھے ہوئے تھے جو اس نے مجھے بڑے شوق سے دکھائے۔ شروع میں اس کا انداز مزاحمتی تھا۔ بات کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ میں نے خاصی تعریفیں کیں اور یہ گر کارگر ثابت ہوا۔ ذہنی بیماری کی اس کیفیت میں بھی تعریفی کلمات کا ان کے مزاج پر خاطر خواہ اثر ہوا میں دو روز تک روحی بانو سے ملنے جاتی رہی۔ اگلے روز شاعری کی کچھ کتابیں بطور تحفہ بھی لے گئی۔وہ بالکل ایک معصوم بچہ لگتی تھی۔ اس کی فرمائش پر میں نے اس کا میک اپ بھی کیا۔ بال بنائے۔ وہ مجھ سے اپنے پرانے عاشقوں کی باتیں بڑے شوق سے کرتی رہی۔ کئی مشہور شخصیات کے اس نے درست نام لیے ایک بڑے شاعر کا نام لے کر کہنے لگی کہ میرے لیے غزلیں کہتا تھا۔ کچھ تو اشعار بھی اسے یاد تھے۔ اسے اپنے ڈرامے بھی یاد تھے۔ وہ سب موضوعات پر بات کرتی اگرچہ ٹوٹی پھوٹی۔ الجھی ہوئی باتیں تھیں اس کی۔ لیکن صرف ایک موضوع پر آ کر وہ خاموش ہو جاتی۔ اس کے اکلوتے بیٹے کی موت کا المیہ تھا۔ دراصل وہی اس کے لیے ناقابل برداشت دکھ ثابت ہوا تھا۔ ورنہ ناکام شادیاں‘ ناکام معاشقے اور شہرت سے گمنامی کا سفر تو وہ جھیل ہی گئی تھی لیکن اکلوتے بیٹے کی حادثاتی موت نے فنکارہ کے اعصاب کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ معمولی کپڑے ‘ میک اپ سے بے نیاز چہرہ‘ بکھرے ہوئے بال۔ فائونٹین ہائوس میں زیر علاج وہ اس وقت بھی خود کو ایک عظیم اداکارہ سمجھتی تھی۔ وہ وہاں کچھ مریضوں کو فن اداکاری بھی سکھاتی۔ جو کہ اس کے علاج کا بھی ایک حصہ تھا۔ مجھے وہ بصد اصرار اداکاری کی اس کلاس میں لے کر گئی فن اداکاری کے رمز سکھاتے ہوئے وہ مجھے ماضی کی گلیوں میں کھویا ہوا ایک کردار لگی۔روحی بانو کا یہ انٹرویو میں نے بہت دل سے لکھا ایک کثیر الاشاعت اخبار میں چھپا تو اس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ الجھی ہوئی بکھری ہوئی ریزہ ریزہ ہوئی روحی بانو کی تصاویر کے ساتھ سرخی لگائی تھی: مسافران رہِ عشق تھک کے بیٹھ گئے اور آج جب گل بہار بانو کی خزاں رسیدہ تصاویر دیکھیں تو بے اختیاروحی بانو کا خزاں رسیدہ چہرہ بھی نظر میں گھوم گیا۔ ایک ہی زندگی میں عروج و زوال۔ شہرت و گمنامی کو جھیلتے ہوئے مسافران رہ عشق بالآخر تھک کے سستانے لگتے ہیں۔