سیاست مختلف گروہوں میں کشمکش اور مقابلہ کا نام ہے۔یہ ایسا کھیل ہے جس میںتقریباً ہم پلہ حریفوں کے درمیان مسابقت ہوتی ہے۔ وہ حکومت لینے کی خاطرایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک گروہ بہت بڑا‘ طاقتور ہو اور دوسرا چھوٹا اور کمزور۔ ان کے درمیان توکشتی ہو نہیں سکتی۔ یہ کرسی کی جنگ ہے جسے لڑنے والے اشرافیہ کے اندر بننے والے مختلف گروہ ہوتے ہیں۔سیاست کی مقابلہ بازی کبھی تو قاعدے قانون‘ دستور کے مطابق ہوتی ہے جیسے الیکشن کے ذریعے ‘ پارلیمان میں اکثریت کی بنیاد پر اور بعض صورتوں میں قواعد سے ماورا سڑکوں پر ہجوم کی طاقت کے بل پر یاپس پردہ سازشوں کے ذریعے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قومی سیاست قاعدے قانون کے دائرہ میں کم اور ماورائے آئین زیادہ ہوئی۔ کبھی فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ کبھی سیاسی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں سے بات چیت کرکے معاملات طے کرنے کی بجائے کسی فریق نے طاقت کابے تحاشا استعمال کیا جیسے مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں۔ الیکشن ہوئے تو ان میں مداخلت کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرلیے گئے جیسے اُنیس سو نوّے کے بدنامِ زمانہ عام انتخابات۔اکثر اوقات اقتدار حاصل کرنے کی غرض سے مسابقت نے تصادم کی صورت اختیار کرلی۔ہارنے والوں نے انیس سو ستر اور انیس سو ستتر کے الیکشن نتائج ماننے سے انکار کردیا ۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن نتائج کو متنازع بنادیا ۔ سیاست میں عوام کو صرف استعمال کیا جاتا ہے۔ان کو شریکِ اقتدار نہیں کیا جاتا۔ عوام کے جذبات اُبھارے جاتے ہیں تاکہ انہیں اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر استعمال کیا جائے۔ مذہب اور نسل و خون کے رشتوں کی بنیاد پرگروہی عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے ۔ امیر طبقہ کے ہوشیار لوگ اپنے گروہ کی طاقت بڑھانے اور اسے وسعت دینے کی غرض سے متوسط طبقہ کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ انہیں امیر بننے کا لالچ‘ ترغیب دے کر اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ان لوگوں کو کسی حد تک اپنی دولت میں شریک کرتے ہیں۔ جیسے نواز شریف نے سرپرستی کے فن کو سائنسی شکل عطا کی۔ سیاست غریب غربا کا کام نہیں۔شریف لوگوں کا کھیل نہیں۔یہ دولت یا تشدد مانگتی ہے۔ یا دونوں کا امتزاج۔ یہ گیم دولت سے کھیلی جائے تو انتخابی جمہوریت وجود میں آتی ہے۔اس کی مثال مغربی ممالک ہیں۔ وسیع پیمانے پر تشدد سے کام لیا جائے توعوامی انقلاب رونما ہوتا ہے ۔ مثلاًایران میںامام خمینی کا انقلاب۔ اگر ریاست کے تشدد کو بروئے کار لایا جائے تو فوجی انقلاب آتا ہے جیسے پاکستان میں مارشل لاء حکومتیں ‘ مصر کی فوجی حکومتیں‘ عرب ملکوں کی بادشاہتیں۔جن ملکوں میںدولت اور تشدد کا امتزاج بنایا گیا وہاں نیم جمہوری معاشرے قائم ہیں۔ پیوٹن کا روس ‘ایران کی اسلامی جمہوریت اس کی مثالیں ہیں۔ پاکستان بھی اسی قسم کاایک نمونہ ہے۔ ایک طرف امیر طبقہ ہے جو سیاسی جماعتوں کے ذریعے عمل پیرا ہے۔ دوسری طرف ریاستی ادارے جن کے پاس طاقت اور ریاستی وسائل ہیں۔ان کے امتزاج سے ہمارا سیاسی نظام صورت پذیر ہوا ہے۔ان دو ستونوں پر یہ نظام کھڑا ہے۔ اگرایک ستون بھی گرا تو نظام بیٹھ جائے گا۔ اشرافیہ اس کھیل سے نکل جائے تو یہ مخلوط نظام چل نہیں سکے گا۔اس لیے عمران خان کو اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ اگر ریاستی ادارے خاموش تماشائی بن جائیں تو تصادم لازمی ہوگا۔ ایسی صورت میںکوئی غیر جانبدار ‘ نیوٹرل نہیںرہ سکتا۔ سیاست میں سفید پوش طبقہ کے جو سر پھرے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے گروہ بناتے ہیں وہ باونڈری پر بیٹھ کر تماشا دیکھ سکتے ہیں یا کسی بڑے گروہ کے حاشیہ بردار بن جاتے ہیں ۔ ان کا اقتدار میں حصہ نہیں ہوتا۔ صرف وقتی اُبھار کے لیے بروئے کار آتے ہیں ۔ ہمارے ہاںننھی منی سوشلسٹ پارٹیاں یاا سلامی انقلاب لانے کی خواہاںجماعت اسلامی وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ یہ طاقت کے نظام کا حصّہ نہیں بن سکے۔البتہ ایجی ٹیشن کا ایندھن بنتے رہے۔ امریکہ میں درجنوں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بنیں اور ختم ہوگئیں۔ مقابلہ دو بڑے حریفوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس میں رہا۔ سفید پوش‘ متوسط طبقہ کے لوگ متحر ک کردار ادا کرتے ہوئے اگر کوئی مقبولِ عام گروپ بنالیں تو جلد اشرافیہ اسے ہائی جیک کرلیتی ہے۔انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پنجاب کے اُبھرتے ہوئے متوسط طبقہ کے دانشوروں نے پیپلزپارٹی بنائی۔ایک ہوشیار‘ ذہین سندھی وڈیرے ذوالفقار علی بھٹونے اُن کے سر پر ہاتھ رکھا۔ جیسے ہی کامیابی ملی‘رفتہ رفتہ سارے دانشور آؤٹ کردیے۔روایتی امیر گھرانوں کے لوگ پیپلز پارٹی پر قابض ہوگئے۔ معراج محمد خان‘ مبشر حسن‘ مختار رانا‘ جے اے رحیم کی جگہ ٹوانے‘گیلانی ‘قریشی ‘ لغاری‘ جتوئی ایسے جاگیر دار مسلط ہوگئے۔تیس سال بعد پنجاب خصوصاً لاہور کے متوسط طبقہ نے ایک بار پھر کروٹ لی۔ انیس سو نوے کی دہائی میں متوسط طبقہ کے ہیرو عمران خان نے تحریک انصاف کے نام سے نئی جماعت بنائی تھی جوپندرہ سال تک ایک چھوٹاسا گروہ رہی۔سنہ دو ہزار گیارہ میں متوسط طبقہ نے اس کے پلڑے میںاپنا وزن ڈال دیا۔عوام الناس میں اس کی بڑھتی مقبولیت دیکھ کر زمانہ سازاشرافیہ جوق در جوق اس میں شامل ہونے لگی۔ بڑے بڑے سیٹھ اور پراپرٹی ٹائیکون اس کے کرتا دھرتا بن گئے۔ پارٹی چلانے کو دولت چاہیے تھی۔ متوسط طبقہ کی جماعت پر اشرافیہ کا قبضہ مکمل ہوگیا۔متوسط طبقہ پچھلے بینچوں پر چلا گیا۔ لیکن غریب اور متوسط طبقہ کے افراد امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔لاشعوری طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار تو امیروں ہی کا کھیل ہے۔ باگ ڈور تو ان کے ہاتھ میں رہے گی لیکن حصہ بقدر جثہ پر اکتفا کیا جائے۔ سیاست کی مسابقت میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں جواُن کے نزدیک چھوٹی برائی ہو۔ پیپلزپارٹی کا کردار اُنیس ستر کی دہائی میں ہی تبدیل ہوگیا تھا۔جاگیر دار اس پر کنٹرول حاصل کرچکے تھے۔ سندھی بولنے والے عوام کے لیے اس سے وابستگی قائم رکھنے کو لسانی‘نسلی رشتہ موجود تھا لیکن پنجاب کے عوام نے بھی اس کا ساتھ انیس سو نوّے کی دہائی تک نہیں چھوڑا۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی تک پنجاب اور خیبر پختونخوا کا ایک بڑا طبقہ پیپلزپارٹی سے چمٹارہا۔ بے نظیر بھٹو منظر عام سے ہٹیں تو اس طبقہ نے عمران خان کا دامن پکڑ لیا۔تحریک انصاف میں اشرافیہ کو اُونچا مقام مل چکا ہے لیکن عوام لیڈر سے وابستہ ہیں۔ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد عوام نے وزیراعظم عمران خان سے سب گلے شکوے بھلا کر ان کا پُرجوش ‘ والہانہ استقبال کیا ۔ میلسی‘ دیر‘ حافظ آباد میں ان کے جلسوں میں عوام کا جم غفیر اور نوجوانوں کا جوش و خروش بتارہاہے کہ عمران خان پاکستانی سیاست کا ایک اہم ترین کردارہے۔حریفوں نے سوچا تھا کہ مہنگائی وغیرہ کے باعث عمران خان نامقبول ہوچکے۔ اس لیے انکے اقتدار کی مدت پوری ہونے سے ڈیڑھ سال پہلے انہیں گرا لیا جائے ۔اس موقع پر الیکشن ہوئے تو عمران خان کو شکست ہوگی۔ لیکن ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ الیکشن اس سال ہوں یا اگلے برس عمران خان اپنے حریفوں کے لیے آسان ہدف ثابت نہ ہوں گے۔ ان کے حق میں لہر چل پڑی ہے۔ الیکشن میں عوامی موج نتائج متعین کرتی ہے۔البتہ خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کا پینڈولم مسابقت سے تصادم کی جانب نہ گھوم جائے۔ فیصلہ اگر تشدد سے ہونا ہے تو جیت اس فریق کی ہوگی جس کے پاس زیادہ طاقت ہے۔