ذرا2002ء میں پیچھے چلتے ہیں۔عرب لیگ زمین کے بدلے امن اقدام کی توثیق کرتی ہے۔مرحوم فلسطینی صدر یاسرعرفات ٹی وی پر براہ راست قریب قریب چلّاتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں:’’ شہید ، شہید ، شہید ‘‘۔وہ اس وقت رام اللہ میں اسرائیلی فوج کے محاصرے میں تھے اور اپنے کمرا استراحت سے بول رہے تھے۔تب مغربی صحافی لبنان میں مہاجر کیمپوں میں کود پڑے تھے تاکہ وہ عرب لیگ کے سربراہ اجلاس کی کوریج میں اپنا اپنا رنگ ڈال سکیں۔میں اس وقت ان کے ترجمان کا کردار ادا کررہا تھا اور بتارہا تھا کہ فلسطینی دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں۔انھیں بڑی چابیاں اور گھروں کے عثمانی عنوانات دکھانے کے بعد فلسطین میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔پھرمہاجرین نے اپنی آخری سانسوں تک حقِ واپسی کے لیے لڑنے کی قسم کھائی لیکن جب کیمرے بند ہوئے تو ان میں سے ایک مجھے ایک طرف لے گیا اور یوں گویا ہوا:’’میری بیٹی جرمنی میں رہ رہی ہے۔ شاید تمھارے صحافی دوست مجھے میری بیٹی تک پہنچانے میں کوئی مدد کرسکیں۔‘‘ لبنان میں پلا بڑا ہونے کے ناتے، جہاں فلسطینیوں کا سب سے بڑا مطالبہ معمول کا پْرامن حل ہوتا، میں یہ سن کر ہکّا بکّا رہ گیا۔میرے مہاجر فلسطینی دوست لڑنا چاہتے تھے لیکن صرف کیمرے کے سامنے۔حقیقی زندگی میں،ہم سب کی طرح وہ ایک شائستہ زندگی چاہتے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ میں جب جب فلسطینیوں سے ملتا رہا ہوں تو انھوں نے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ان کی واضح نظر اپنے مفادات پر ہوتی ہے،نہ کہ خالی خولی قومی نعروں پر۔ 2007ء میں جب سلام فیاض کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم نامزد کیا گیا تو اس کے بعد ان فلسطینیوں نے ایک وقفہ لیا تھا اور یہ منظر نامے پر ’’فیاض ازم‘‘کا نتیجہ تھا۔ان کی سلسلہ وار اصلاحات سے اقتصادی ترقی ہوئی۔یہ فلسطینیوں کی اب تک کی سب سے بہترین حکومت رہی ہے لیکن انتخابات کی عدم موجودگی اور سلام فیاض کے پیچھے کوئی اتحاد کارفرما نہ ہونے کی وجہ سے فتح تحریک اور حماس نے انھیں نکال باہر کرنے کے لیے سازش کی اور حسبِ معمول کرپٹ انداز میں حکومت کے پیچھے لگ گئے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس میں فلسطینیوں کے حقیقی مسئلہ سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ کیا انھیں اس منصوبہ کو قبول کر لینا چاہیے۔اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انھیں فلسطینی سرزمین کا صرف 15 فی صد ہی ملے گا۔ان کی ریاست بہ مشکل ہی خود مختار ہوگی اور آزاد تو بالکل بھی نہیں۔ فلسطینیوں کی تشویش اور تحفظات جواز کے حامل ہیں۔اگر آج کی دنیامیں اقتصادی ترقی اور نشوونما کے لیے اراضی پیشگی بنیادی ضرورت ہے تو شاید ایک صدی قبل جب فلسطینی ، اسرائیلی تنازع پہلی مرتبہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت بھی یہی معاملہ تھا اور اس کے بعد آنے والے عشروں میں بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ مگرعالمگیریت نے زراعتی اور صنعتی شعبوں کو چھوٹے ممالک بہ شمول اسرائیل سے دیس نکالا دے دیا ہے اور ان ممالک کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی معیشتوں کو ایشیائی شیروں (ایشین ٹائیگرز) سنگاپور اور ہانگ کانگ کے نمونے پر استوار کریں۔مشرقِ اوسط میں دبئی اور ابوظبی نے اس ماڈل کو اپنایا اور شاندار کامیابی حاصل کی ہے اور سعودی عرب بھی اپنے ویژن 2030ء کے تحت اسی نمونے پر عمل پیرا ہے۔صدر ٹرمپ کے ویژن میں کوئی زیادہ تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے۔فلسطینی اس کے تحت شاید غرب اردن کے اے اور بی علاقوں کا کنٹرول حاصل کریں گے۔1993ء کے اوسلو معاہدے میں کچھ ایسا ہی خاکہ بیان کیا گیا ہے۔ان دونوں زون کا مل کر کل رقبہ 2256 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ یعنی غرب اردن کے کل 5640 مربع کلومیٹر کا کوئی 40 فی صد۔اس میں مشرقی القدس کا علاقہ بھی شامل ہے۔غرب اردن کے اس علاقے میں 28 لاکھ افراد آباد ہیں یا یوں کہہ لیں 97فی صد فلسطینی ہیں۔ غربِ اردن کا باقی علاقہ 'سی' کہلاتا ہے اور متنازع ہے۔کسی بھی حل کی صورت میں اس علاقے میں شاہراہوں اور سرنگوں کا ایک جال ہوگا۔اس سے فلسطینی ریاست کو مربوط ہونا چاہیے۔ فلسطینی ریاست کو غزہ کی پٹی کا مختصر مگر دنیا کا سب سے گنجان آباد علاقہ بھی حاصل ہوگا۔یہاں اس وقت 369 مربع کلومیٹر کے رقبے میں 19 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔فلسطین میں ساڑھے تین لاکھ یروشلیمی بھی شامل ہوں گے۔اس شہر کے ساتھ اس کے شمال مشرق میں واقع علاقے بھی فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں گے۔یوں صدر ٹرمپ کے منصوبے کیمطابق فلسطینی ریاست کا کل رقبہ قریباً تین ہزار مربع کلومیٹر ہوگا اور اس کی آبادی 50 لاکھ نفوس کے لگ بھگ ہوگی۔اگر ایشیائی ٹائیگر معیشتوں سے موازنہ کیا جائے تو فلسطین سنگاپور سے پانچ گنا اور ہانگ کانگ سے تین گنا بڑا ہوگا۔فلسطین 50 لاکھ آبادی کے ساتھ سنگاپور سے کم گنجان آباد ہوگا۔اس کی آبادی 56 لاکھ ہے۔ہانگ کانگ کی آبادی 74 لاکھ ہے۔وہ مستقبل کے فلسطین سے زیادہ چھوٹے اور زیادہ گنجان آباد ہیں مگر سنگاپور اور ہانگ کانگ کی موجودہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) بالترتیب 340 ارب ڈالر اور350 ارب ڈالر ہے۔ان کے مقابلے میں فلسطینی علاقوں کی جی ڈی پی بہت تھوڑی ہے اور15 ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ کیا فلسطینیوں کو اس ڈیل میں اظہارِ دلچسپی کرنا چاہیے؟ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو 50 ارب ڈالر کی موعودہ معاشی امداد میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔اس سے فلسطینیوں کو تیزرفتار اقتصادی ترقی کا ایک عشرہ حاصل ہوسکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔فلسطینیوں کو اچھی آمدن اور خوش حالی حاصل ہوسکتی ہے۔یہ سب کچھ خود مختاری اور اپنی زیادہ تر اراضی سے دستبرداری کی قیمت پر ہوگا۔ لیکن اگر خود مختاری کی کوئی قدر وقیمت ہے تو یہ لبنان ایسے ملک کو مکمل خود مختار اور خوش حال بنا چکی ہوتی۔اس کے بجائے لبنان ٹوٹ رہا ہے،اس کی معیشت زبوں حال ہے،کرنسی روز بروز اپنی قدر کھو رہی ہے اور اس کے لوگ غْربت کا شکار ہورہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے امن منصوبہ میں فلسطینیوں کے ساتھ گذشتہ ایک صدی کے دوران میں ہونے والی تمام ناانصافیوں کو نظرانداز کیا گیا ہے لیکن یہ انھیں ایک واضح انتخاب بھی دیتا ہے۔وہ یہ کہ کیا وہ دبئی طرز کی ایک خود مختار (خوش حال) ریاست چاہتے ہیں یا وہ ایک ایسا خود مختار ملک چاہتے ہیں جو لبنان ایسا دِکھتا ہو؟