مجھے آج بھی وہ نوجوان نہیں بھولتا اسکے کپڑے پھاڑ دیئے گئے تھے گلے میں قمیض کی جگہ دھجیاں سی لٹک رہی تھیں اور چہرے پر تشدد کے نشانات تھے اسے بری طرح سے پیٹا گیا تھا دائیں آنکھ یوں سوجھی ہوئی تھی کہ کھلنا مشکل ہورہا تھا ،وہ بیہوش ہونے کو تھا اسے چکر آرہے تھے اور متلی بھی ہورہی تھی ،تھانے کا ایس ایچ او یہ دیکھ کر اسے وہاں لانے والے موبائل افسر پر برس پڑاوہ ڈانٹ رہا تھا کہ اسکی حالت تھانے لانے والی ہے یا اسپتال لے جانے والی ،موبائل افسر نے منمناتے ہوئے کہا صاحب میں نے پہلے روزنامچے میں انٹری ۔۔۔۔بھاڑ میں گیا روزنامچہ اور انٹری ،اسے فورا لے کر اسپتال پہنچو،ایس ایچ او موبائل افسر پر الٹ پڑاوہ ڈانٹ کھا کر پھرتی کے ساتھ اس نوجوان کو موبائل میں لے کرتھانے سے نکل گیا، ایس ایچ او نے فورا نفری تیار کرنے کا حکم دیا ،دو پولیس موبائلیں تیار ہوئیں ،شورمچاتے ہوئے تھانے سے نکلیں اور تقریبا دو گھنٹہ بعد واپس آئیں تو موبائلوں میں سپاہیوں کے ساتھ چھ سات افراد بھی تھے جنہیں دیکھنے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ پولیس نے اپنے مہمانوں کی راستے ہی میں تواضع شروع کر دی تھی،یہ سب افراد وہ تھے جن کی وجہ سے وہ نوجوان چکراتا ہوا تھانے آیا تھا،اسکی غلطی یہ تھی کہ وہ ان کے بچوں کو ہنستابھاگتا مسکراتا دیکھنا اوربیساکھیوں سے دور رکھناچاہتا تھا ،وہ ایک پولیو ورکر تھا اورمنگھوپیر کے کسی علاقے میں پولیو مہم پر تھا ،یہ کراچی کا نواحی علاقہ ہے جرائم کے حوالے سے بھی منگھوپیر ہمیشہ سے مشکل علاقہ رہا ہے یہاں کے لوگ پولیو ویکسین کے حوالے سے مشکوک رہتے ہیںاور اسے اغیار کی سازش سمجھ کر اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ،ایس ایچ او نے تمام افراد کو حوالات میں ڈال کر ہیڈمحرر سے کہا کہ فورا پرچہ کاٹ دو بالکل بھی رعائت نہ کرنا،ایک رپورٹر کی حیثیت سے ایس ایچ او سے میری خاصی شناسائی تھی میں اٹھ کر ملزمان کے پاس چلا آیا اور ان سے پولیو ورکر پر تشدد کی وجہ پوچھی ان میں سے ایک نے بے خوفی سے کہا کہ آپ میرے سامنے میرے بچے کو زہر دینے کی بات کرو اورمیں چھوڑ دوں ؟ وہ پولیو ویکسین کو زہر کہہ رہا تھا کم تعلیم یافتہ جوان العمر شخص تھا جسکی پرچون کی دکان تھی کہنے لگا یہ ویکسین ہماری نسلیں خراب کررہی ہے ہمارے بچے نامرد ہوجائیں گے۔ ہم اسے منع کررہے تھے مگر وہ اصرار کررہا تھا جس پر جھگڑا ہو گیا۔ پولیو ویکسین کے حوالے سے اسی طرح کا پروپیگنڈہ سننے کو ملتا ہے اسکے خلاف دلائل دینے والوں کے پاس سب سے مضبوط دلیل یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے بچوں کی فکر کرے اورہم پر اربوں روپے خرچ کرے ،مخالفین اسی قسم کے شکوک شبہات اس دوا پر چسپاں کر دیتے ہیں ،یہ ہماری ناکامی ہے کہ ہم پولیو ویکسین کو اب تک ان شکوک و شبہات سے نکال نہیں سکے جسکا نتیجہ یہ ہے کہ بیرون ملک سفر کے لئے ہم سے پولیو ویکسین کے قطرے پینے کی سند مانگی جاتی ہے دو برس پہلے راقم کوترکی جانا تھا یہ سفر اس وقت تک ممکن نہ ہوا جب تک حلق میں پولیو ویکسین کے دو قطرے ٹپکا کر سند کے طور پر کارڈ بنا کر نہ دے دیا گیا۔ طبی سائنس کا کہنا ہے کہ انسانی معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ہی پولیو وائرس بھی ساتھ رہ رہا ہے۔1365قبل مسیح سے پہلے کے مصر میں پہاڑوں غاروں میں کندہ کی جانے والی تصاویر میں مڑے ہوئے پاؤں والے ایک مذہبی رہنما کو دیکھا جا سکتا ہے ،پولیو کی کلینکل تشریح1789ء میں ہوئی اوراسے 1840ء میں بطور بیماری تسلیم کیا گیانیویارک میں 1916ء میں پہلی بار پولیو نے وبا کی صورت میں حملہ کیااس عرصے میں نوہزار کیس رپورٹ ہوئے اور2343افراد جان سے گئے اس حملے کے بعد پولیو سے لڑائی کی تیاریاںکی جاتی رہیںطبی سائنسدان حفاظتی حصار کھینچنے کی کوشش کرتے رہے 1961ء میںالبرٹ سبین نے opvویکسین بنائی جسے اگلے برس سے استعمال میں لایا گیایہ ویکسین کافی موثر ثابت ہوئی اس نے 80ء کی دہائی کے آخر تک امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیااور یورپ کے بڑے حصوں سے پولیو کا خاتمہ کردیااسکے باوجود پولیو کا خطرناک مرض125ملکوں میں نسل انسانی کے لئے خطرہ بنا رہاجس کے بعد اقوام عالم نے پولیو کے خلاف عالمی جنگ کا بڑا فیصلہ کیاہدف رکھا کہ 2000ء تک پولیو ختم کر دیا جائے گا،1997ء تک امریکہ اور یورپ سے پولیو کا خاتمہ کردیا گیا،2012ء میںصرف پاکستان ، بھارت،نائیجریا اور افغانستان ہی پولیو کے لئے پناہ گاہ ثابت ہوئے یہاں بھی پولیو کا پیچھا کیا گیا بھارت اور نائیجریا نے اس کا خاتمہ کرکے اپنا مستقبل بچالیا اب پوری دنیا میں صرف افغانستان اور پاکستان ہی وہ ملک رہ گئے ہیں جہاں پولیو موجود ہے۔ گذشتہ برس پاکستان کے لئے اس حوالے سے خوفناک رہا کہ یہاں پولیو کے 146کیسز سامنے آئے 2018ء میں یہ تعدادمحض 12تھی ، رواں سال خانہ جنگی سے بے حال افغانستان میں اب تک پولیو کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا جبکہ ہمارے یہاں کھاتہ کھل چکا ہے 18کیس رپورٹ ہوچکے ہیں حکومت ایک بار پھر پولیو کے خلاف میدان میں ہے 2لاکھ 65ہزار پولیو ورکرپولیو ویکسین سے مسلح ہو کر ہمارے تین لاکھ نوے ہزار بچوں کو دو دو محفوظ قطرے پلانے پہنچ رہے ہیں یہ صحت مند مستقبل محفوظ بنانے کے لئے واقعتًا جنگ ہی توہے اس لڑائی میں اب تک72پولیو ورکر بھی مارے بھی جاچکے ہیں یہ سب قوم کے محسن تھے جنہوں نے اپنی جانیں اس قوم کی صحت پر وار دیں ،اس لڑائی میں سب سے اہم معاملہ پولیو ویکسین کے حوالے سے خدشات شکوک شبہات کا ہے جنہیں دور کرنے کے لئے ہم مسجد منبر محراب کو اعتماد میں لے کر زیادہ اچھے نتائج حاصل کرسکتے ہیں ان کے ذریعے بتا سکتے ہیں کہ گورے ہمارا نہیں دراصل اپنا مستقبل بچا رہے ہیں پولیو کا وائرس کبھی بھی وبائی مرض کی صورت اختیار کرکے ڈھائی سے تین لاکھ بچوں کو متاثر کر سکتا ہے ان کی پنڈلیوں بازؤں کا گوشت سکھا سکتاہے عمر بھر کے لئے معذور کرسکتا ہے،یہ وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ سفربھی کرتا ہے اور یہی خطرے کی بات ہے اقوام عالم کی نظریں ہم پر ہیں کہ ہم اس جنگ میں کیا کارکردگی دکھاتے ہیں ہم سے بہت پیچھے کا ملک نائیجریا یہ لڑائی تقریبا جیت چکا ہے وہاں تین برسوں سے ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا،ہمارے میڈیا کو اس پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔