ہمارے پاس کوئی اوباما،ٹرمپ، بش یا کلنٹن جج نہیں ہے، ہمارے ججز برابری کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ امریکی چیف جسٹس جان رابرٹس نے یہ جواب صدر ٹرمپ کے سپریم کورٹ کے تارکین وطن کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے بعد ہرزہ سرائی کے جواب میں دیا۔صدر ٹرمپ اپنے عامیانہ بیانات اور روّیے کے باعث آئے دن کسی نہ کسی کے ہاتھوں اپنی درگت بنوا رہے ہوتے ہیں۔امریکی تاریخ کے مسٹر ٹرمپ پہلے صدر ہیں جن کی ملکی سطح اور عالمی رسوائی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے رکنے کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ وہ خود رسوائی کو دعوت دیتے ہیں کبھی اپنے بیانات سے کبھی ٹویٹ سے اور کبھی وہائٹ ہائوس یعنی اپنے گھر آئے صحافی مہمانوں کے ساتھ بد تمیزی کر کے۔ اگرچہ امریکہ کے اندر ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ وہ نسل پرست ہیں اور کسی رنگدار یا غیر گورے شخص کیساتھ گفتگو میں وہ بہت جلد صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔لیکن میرے خیال میں انکی ہرزہ سرائی کی وجہ نہ تو گورا یا کالا ہونا ہے اور نہ ہی وہ مرد اور عورت میں تفریق کرتے ہیں۔ جب وہ بولنے پہ آتے ہیں توپھر کم از کم اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ تازہ ترینـ متھہ انہوں نے ہمارے عمران خان صاحب سے لگایا ہے اور شاید انہیں با لکل اندازہ نہیں تھا کہ انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ اصل میں حالیہ انتخابات میں کانگرس میں شکست کھانے کے بعد انکی ذہنی حالت مزید بگڑ گئی ہے اور امریکی صدر طاقت کے نشے میں دھت نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جہاں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ طاقتوروں کی تاریخ ایک جیسی ہے۔اسی طرح یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ طاقت کے نشے میں دھت ایسے حکمرانوں پر ایک ایسا وقت آتا ہے جہاں انکی سوچنے، سمجھنے، سننے اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت ناپید ہو جاتی ہے۔ تاریخ کا ادراک ہونا طاقت کے نشے کو کسی حد تک کنٹرول میں رکھتا ہے لیکن اس سطح پر پہنچنے کے بعد یہ ادراک بھی نہیں رہتا اور پھر ایک ایسے زوال کا آغاز ہوتا ہے جو تاریخ میں عبرت کے باب کے عنوان سے تحریر ہوتا ہے۔ اس وقت بھی دنیا میں ایک ایساحکمران موجود ہیں جو طاقت کے نشے میں دھت ہے اور اس میں تاریخ سے سبق سیکھنے کی کوئی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔یہ سب سے خطرناک آدمی امریکی صدر ٹرمپ ہے۔ انکا یروشلم کو اسرائیلی دارالخلافہ تسلیم کرنے کا غیر دانشمندانہ اقدام ہو یا ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کرنا۔تارکین وطن کے بارے میں ملکی پالیسی ہو ، ایسے اقدامات ہیںکہ عالمی قیادت بھلے یورپ کی ہو یا ایشیا کی ٹرمپ کی پالیسیوں کے حوالے سے بہت شاکی ہے۔ عالمی قیادت ہی نہیں بلکہ خود امریکی تجزیہ کار اس کے بارے میں شدید تشویش کا شکار ہیں۔ اور ان سب کا خیال ہے کہ جو اقدامات صدر ٹرمپ وقتاًفوقتاً کرتے رہتے ہیںاس سے شایدامریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن دنیا کا امن بری طرح متاثر ہوتا چلا جا رہا ہے۔سابق امریکی صدر بارک اوباما ٹرمپ کے اس فیصلے پر انہیں ہٹلر کا خطاب دے چکے ہیں۔ٹرمپ کی ذہنی صحت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھ چکے ہیں جسکی صدر کے دفتر نے تردید کی ہے کہ صدر ٹرمپ ڈیمنشیا کا شکار نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے جب سے صدارت سنبھالی ہے آئے دن کوئی نہ کوئی درفنتنی چھوڑتے رہتے ہیں اور اس پر ان کا دنیا بھر میں مذاق بھی اڑتا ہے۔اس بار انہوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے ۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی وہ اس قسم کی گفتگو کر چکے ہیں لیکن شاید انکی تسلّی نہیں ہوئی تھی کہ ایک بار پھر چیخ رہے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی کوئی مدد نہیں کی۔حالیہ تاریخ سے اس قدر بے خبر دنیا کی تاریخ کے سب طاقتور ملک کا سربراہ کوئی نہیں گزرا اور یہی تشویش کی بات ہے۔ وہ امریکی قومی مفاد کا کیس بھی اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جرمن وزیر خارجہ زیکمار گبریل بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ ـقومی خود غرضی کا شکار ہے۔ زیکمار کا کہنا تھا کہ ہماراامریکہ فرسٹ قسم کا موٹو بین الاقوامی سطح پر مزید تنازعات کو جنم دے گا۔ ہمیںعلم ہے کہ جرمنی فرسٹ کی وجہ سے جرمن قوم نے ترقی نہیں کی بلکہ یورپ اور بین الاقوامی ذمہ داری سب سے پہلے پر یقین کی وجہ سے ترقی ممکن ہوئی ہے۔انہوں نے متنبہ کیا کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو نہ روکا گیا تو یورپی یونین اور اقوام متحدہ بالکل غیر متعلق فورم ہو کر رہ جائیں گے۔ اسی طرح سے جب صدر ٹرمپ نے برطانوی لیڈر کی مسلم مخالف ویڈیو شیئر کی تھی تو برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے شدید رد عمل کا بجا طور پر اظہار کیا۔ اس عمل پر شرمندہ ہونے کی بجائے ٹرمپ نے تھریسا مے کو طعنے دینے شروع کر دئیے اور کہا کہ پہلے وہ اپنے ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مسئلے کو نپٹائیں پھر ان پر تنقید کریں۔ یہ زبانی لڑائی اسقدر شدت اختیار کر گئی کہ برطانوی وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ پارٹنر شپ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب امریکہ کوئی غلط قدم اٹھائے تو ہم خوفزدہ ہو کر خاموش ہو جائیں۔ برطانیہ، یورپ جیسے تگڑے ممالک ہی نہیں پاکستان کو بھی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر بات کررہا ہے۔ بظاہر دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر اپنا وقت پورا کر چکا ہے ، جس قسم کے حالات اس نے دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں اور خود جس طرح اپنے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس چکا ہے اب اس میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ کسی ملک کو بھی ڈکٹیٹ کر سکے۔لے دے کہ بھارت رہ گیا ہے جسکی نئی نئی محبت ہوئی ہے جو امریکہ کے حوالے سے بہت سی خوش فہمیاں رکھتا ہے۔ لیکن اسکو بھی جلد ہی احساس ہو جائیگا کہ وہ غلط وقت پر امریکہ کا دوست بنا ہے۔پوری دنیا گو مگو کی کیفیت میں ہے اور بہت جلد اہم ممالک کی خارجہ پالیسی میںامریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کا بگل بج جائے گا۔