پاکستان اور کشمیر دو جسم ایک جان ہیں۔اگر جسم کے کسی حصے کو نقصان پہنچا تو وہ پاکستان کو نقصان پہنچے گا۔کشمیر پاکستان کا دل ہے اگر دل پر دشمن کا ہاتھ اور گھات رہی تو پاکستان کا وجود اپنوں کے لئے دلدل بن جائے گا۔ برطانوی تقسیم ہند(3جون پلان 1947ئ) کے مطابق ریاست کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا کشمیر پاکستان سے ملحق بلکہ متصل مسلم اکثریتی سرزمین ہے جہاں کے مسلمانوں کی برطانوی انگریز اور ہندو ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ سے آزادی کے لئے عوامی تحریک جاری تھی کشمیر میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ اتنا منہ زور اور ظالم تھا کہ انہیں کشمیر کے مساجد و مدارس برے لگتے تھے او دریں صورت ایک مسجد میں اذان کے دوران تقریباً 32مسلمان شہید کئے گئے اور اذان مکمل ہوئی۔کشمیر جنت نظیر پہاڑوں ندیوں اور جھیلوں کی وادی ہے، اس وقت کشمیر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے، تقریباً 55فیصد بھارت‘35فیصد پاکستان اور 15فیصد چین کے زیر انتظام ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے 22اضلاع ہیں، 17اضلاع مسلم آبادی اور 4اضلاع جموں ‘ کٹھوعہ‘ اودھم پور اور سامبا ہندو اکثریتی آبادی اور ضلع لے LEHبدھ آبادی پر مشتمل ہے۔مسلم آبادی کے اضلاع پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہیں جبکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 25لکھ ہے۔ مسلم آبادی تقریباً 68.315فیصد ہندو آبادی 28344فیصد سکھ 01.87فیصد بدھ 0.90فیصد اور عیسائی 0.28فیصد ہیں۔قائد اعظم نے لارڈ مائونٹ بیٹن بحیثیت پہلے بھارتی گورنر جنرل‘ وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور کشمیری ہندو راجہ ہری سنگھ کے گٹھ جوڑ کا فوری حل جہادی پالیسی قرار دیا تھا۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد پاکستان کی جہادی پالیسی التجائی پالیسی بن گئی پاکستان نے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی قیادت میں تقریباً 35فیصد رقبہ آزاد کرایا اور باقی رقبہ بھی آزاد ہونے کو تھا کہ بھارت نے برطانوی ہمدردی کے ساتھ اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کرائی اور استصواب رائے کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل قرار داد اور بعدازاں قرار دادوں کے مطابق ہونا قرار پایا۔آج صورتحال یہ ہے کہ بھارت اور اقوام متحدہ UNOکا گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہے کہ استصواب رائے کشمیری عوام کے حق رائے دہی کے لئے الیکشن ہوا اور نہ ان کو انسانی حقوق دیے گئے بلکہ بھارت نے تقریباً 9لاکھ فوج بھیج کر کشمیری مسلمانوں پر ظلم‘ زیادتی ‘ درندگی اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہونے کے بھارت کا حصہ نہیں تھا مگر اب 5اگست 2019ء کے دن بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی متنازع اور جداگانہ حیثیت Statusختم کر کے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنا لیا ہے۔ دریں صورت بھی پاکستان کا ردعمل ناقابل فہم ہے کہ التجائی پالیسی کی رٹ ختم نہیں ہوئی بلکہ اسلام آباد سرکار کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر محمود چودھری نے اسلام آباد میں امریکی سیاسی قونصلر اور سفارتی معاونین سے ملاقات کر کے التجا کی ہے کہ مسئلہ کشمیر پاک بھارت امن‘ سلامی اور دوستی کا دشمن ہے لہٰذا امریکہ اور عالمی برادری مسئلہ کشمیر کا پرامن حل تلاش کرے جبکہ بھارت کی کشمیر پالیسی برعکس ہے۔پاک چین دوستی اور سی پیک کی منصوبہ بندی اور سرگرمی نے بھارت اور عالمی طاقتوں اور اداروں کو مزید متحد منظم اور مضبوط کر دیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے فوجی آپریشنز نے اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ نے خطے کی خطرناک صورتحال بڑھا دیا ہے۔اس وقت اسرائیل کے فوجی کشمیر میں موجود ہیں جبکہ اسرائیلی شہری سری نگر اور دیگر علاقوں میں زمین خرید رہے ہیں۔ تقریباً ایسی ہی کیفیت دوسرے دیگر عالمی ملکوں کی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں زمینیں خرید رہے ہیں۔علاوہ ازیں بھارت اگلے سال G.20کا سربراہی اجلاس اور سیمینار مقبوضہ کشمیر کے علاقے سری نگر جموں میں رکھنا چاہتا ہے اگر بھارت G.20کی کانفرنس کرنے میں کامیاب ہو گیا تو یہ خطے میں بھارت کی حیثیت اور کسی حد تک بالادستی مختلف مسائل پیدا کرے گی۔G.20دنیا کی طاقتور اور مضبوط معاشی قوتوں کی معاشی تنظیم ہے جس کے اہم ارکان میں دنیا بھر کے بنکوں(عالمی بنک IMF‘ ایشیائی ترقیاتی بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں) کے گورنرز بھی شامل ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پکے اراکین امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس اور چین بھی شامل ہیں جبکہ جرمنی ‘ یورپی یونین‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ جاپان وغیرہ بھی G.20میں شامل ہیں۔یاد رہے کہ امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس ‘ اسرائیل وغیرہ بھارت کے دفاعی اور معاشی حلیف بھی ہیں۔سی پیک کا آغاز گلگت‘ بلتستان سے ہوتا ہے اور بھارت نے گلگت بلتستان اور کارگل کی بیس دراس روڈ سے چندی گڑھ پنجاب تک بھاری تجارتی گاڑیوں کے لئے موٹر وے بہت پہلے مکمل کر لی ہے جبکہ پاکستان میں سی پیک کی سڑکیں بنانا بھی مشکل ہوا ہے۔اسرائیل کی کشمیر کے فوجی تجارتی اور سیاسی معاملات میں گہری دلچسپی خاصی تشویشناک ہے کیونکہ اسرائیلی ترجیحات میں اسلامی ‘نظریاتی ‘ جوہری اور جہادی پاکستان‘ دشمن نمبر 1ہے۔اگر پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو اسرائیل کی امریکی سفارتخانے کی طرح اسرائیلی سفارتخانہ بھی قائم ہو جائے گا اور جنرل پرویز مشرف کی خود مختار کشمیر کی پالیسی کی راہ آسان ہو جائے گی۔یاد رہے کہ خود مختار کشمیر پاکستان کی خاکم بدہن شکست و ریخت کی راہداری ہے‘خود مختار کشمیرافغانستان کی طرح خشکی سے ہو گا، جو کراچی تا گوادر بندرگاہوں کے حصول کے لئے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔اللہ تعالٰی پاکستان کی حفاظت فرمائے۔