کالم نگار ہوں یا تجزیہ کار ہر کوئی اپنے مطالعہ، نظریے،مشاہدات، تجربات اور کبھی مخصوص افتاد طبع کے تحت لکھتا ہے۔بہت بار لکھنے والوں کی رائے ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہوتی ہے۔ انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ ہر کوئی اپنی سمجھ بوجھ، فہم اور سوچ کے تحت لکھتا ہے۔ بسا اوقات کسی تحریر میں حقائق مسخ ہوجاتے ہیں، تاریخ کے حوالے غلط اور مجموعی تاثر ایسا بنتا ہے جس سے قارئین مغالطوں کا شکار ہوجائیں۔ تب مجبوراً صورتحال کو واضح کرنے کے لئے لکھنا پڑتا ہے تاکہ ریکارڈ درست رہے اور غلط اطلاعات آگے چل کر کسی بے بنیاد سازشی تھیوری میں تبدیل نہ ہو سکیں۔ اتوار کے روز ایک معروف کالم نگار ، اینکر نے اپنے کالم میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے لکھا۔یہ سینئر اور مقبول لکھنے والے ہیں، اپنی تحریر میں فکشن اورمسالہ دار کہانی کاخوب تڑکا لگاتے ہیں ، اکثر واقعے سے آغاز کرتے ہیں اور کبھی دلچسپ مکالموں کے ذریعے اپنی بات کہہ ڈالتے ہیں۔ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک دو کالم پہلے بھی لکھ چکے ہیں، اس بار انہوں نے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ آخر اس ایشو پرپاکستانی موقف ہے کیا، مجھے کوئی تو سمجھائے۔ یہ ان کا نقطہ نظر ہے، انہیں اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے، ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔ تاریخ کا احترام مگر بڑا ضروری ہے، بغیر تحقیق اور بغیر مطالعے کے کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ ہمارے ممدوح کے کالم میں خوفناک تضادات اور غیر منطقی جذباتیت کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔اختصار کے ساتھ ان پر بات کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد سر کا خطاب واپس کر دیا تھا جبکہ علامہ اقبال نے اس سانحے کے تین سال بعد برطانوی حکومت کی جانب سے دیا جانیو الا سر کا اعزاز قبول کر لیا۔آگے جا کر انہوں نے لکھا کہ ہم اس پر ٹیگور کی واہ واہ نہیں کر سکتے اور علامہ اقبال کے فعل کو برا بھی نہیں کہہ سکتے ۔ وہ غالباً یہ نکتہ پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ کسی خاص ایشو پر دو انتہائی مخالف سوچ رکھنے اور اس پر عمل کرنے والے لوگ بیک وقت درست ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اس کے بعد لکھا ،’’ فلسطین کے ایشو پراسلامی ممالک کے دو طرزعمل تھے ، ایک گروپ نے اسرائیل اور اسرائیلی قبضے کو مسترد کر دیا جبکہ دوسرے گروپ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا،مگر دونوں اسرائیلی ظلم پر احتجاج بھی کرتے رہے ہیں، دونوں میں سے کون درست اور کون غلط؟یہ فیصلہ ٹیگور اورعلامہ اقبال کی طرح آسان نہیں ۔‘‘ اس بیان میں دو غلطیاں ہیں۔ ایک تو ٹیگور اور علامہ اقبال کا موازنہ درست نہیں۔ ٹیگور کی طرح اگر اقبال کے پاس بھی اس وقت سر کا خطاب ہوتا تو وہ احتجاجاً واپس کر دیتے ، اقبال نے جلیانوالہ باغ والے حادثے پر سخت احتجاج، اس کی مذمت کی بلکہ اس سانحے پر کھل کر لکھا۔ تین سال بعد ہندوستان کے حالات بہت بدل چکے تھے، ملکی سیاست بھی جلیانوالہ باغ اور جنرل ڈائر سے بہت آگے جا چکی تھی۔اس وقت کے حالات میں اسے قبول کرنا درست تھا۔ اہم بات یہ ہے جو اقبال مخالف محققین نے بھی تسلیم کی کہ سر کا اعزاز ملنے کے بعد علامہ اقبال کے قلم کی تیزی، تندی میں ذرا برابر فرق نہیں آیا۔وہ پروبرٹش گورنمنٹ نہیں بنے، کھل کر اپنی بات کہتے رہے اور ہمیشہ اپنی مسلم قوم کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ۔ ان کا مشہور خطبہ آلہٰ باد بھی سر کا اعزاز ملنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ ٹیگور اور اقبال کا موازنہ منطقی اعتبار سے بنتا ہی نہیں۔ ان محترم کالم نگار یہ کہنا بھی تاریخی اعتبار سے غلط ہے کہ مسئلہ فلسطین پر اسلامی ممالک کے دو گروپ تھے، ایک نے اسرائیل کی مخالفت کی ، دوسرے نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ ایسا قطعی نہیں ہوا۔ کم از کم اس زمین (Earth Planet)پر تو نہیں ہوا، ممکن ہے مریخ یا کسی دوردراز سیارے میں کچھ ہوگیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین پر طویل عرصہ تک پوری مسلم دنیا یکسو رہی ۔ عرب دنیا کے تمام ممالک کا1948ء کی جنگ سے لے کر 1973ء کی جنگ رمضان تک ایک ہی موقف تھا۔ جنگ تہتر میں شکست کے بعد مصری سربراہ انورسادات نے بیان دیا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ تو جنگ کر سکتے ہیں، مگر اسرائیل کی پشت پناہ امریکہ جیسی سپرپاور کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا ۔ اگلے بیس سال تک کسی اور عرب ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، حتیٰ کہ اکتوبر1994ء میںاردن (Jordan) نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اب چھبیس سال بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بنا ہے۔ اسی کالم میں یہ کہا گیا،’’ اسرائیل کے گرد بائیس اسلامی ممالک ہیں ،ان کی آبادی اسرائیل کی آبادی سے تیس گنا زیادہ ہے، لیکن آج تک ان بائیس ممالک نے اپنے بھائیوں کے لئے کیا کیا؟‘‘ یہ اندھادھند قسم کی سوئپنگ سٹیٹمنٹ بھی تاریخی حقائق کے پرخچے اڑانے کے مترادف ہے۔ فاضل لکھاری اگر صرف دو منٹ گوگل پر صرف کر لیتے تو پتہ چل جاتا کہ اسرائیل کے قریب موجودعرب ممالک نے اسرائیل سے تین بڑی خونریز جنگیں لڑیں۔ 1948, 1967, 1973میں۔جنگ سے بڑا اقدام او رکیا ہوسکتا ہے؟ آخری دونوں جنگوں میں تو اسرائیل کے اطراف کے تمام عرب پڑوسی متحد تھے۔ اگرچہ دونوں جنگیں عرب ہار گئے، مگر اس کی وجہ امریکہ، برطانیہ اور پوری مغربی دنیا کا اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہونا تھا۔دوسری جنگ جسے جنگ رمضان (یا اسرائیلی جنگ کپور) کہتے ہیں، اس میں عربوں نے اسرائیل کو ٹھیک ٹھاک سرپرائز دیا اور ایک بار تو اسرائیلی افواج کو خاصا پیچھے دھکیل دیا۔ اگر امریکہ کھل کر اسرائیل کی مدد نہ کرتا تو شائد اسرائیل کا آج وجود بھی نہ ہوتا۔عربوں نے تیل کا ہتھیار بھی انہی دنوں استعمال کیا، جس نے پورے مغرب کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ کہنا زیادتی ہے کہ عربوں یا مسلم ممالک نے کبھی فلسطینیوں کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ چودھری صاحب نے اپنے اس کالم میں عربوں اور دیگر مسلم ممالک کی’’ کماحقہ ‘‘مرمت کرنے کے بعد مسکین پاکستانیوں کا رخ کیا اور چند ایک عجیب وغریب قسم کے طنز فرمائے۔ مثال کے طور پر لکھا:’’ ہم پاکستانی بھی ایک طرف فلسطین کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے اور دوسری طرف’’ ہم نے ‘‘اردن کے شاہ حسین کے حکم پر 1970ء میں فلسطینیوں پر ٹینک چڑھا دئیے ۔‘‘اس جملے میں ’’ہم نے‘‘کی بلاغت کو سراہنا چاہیے، کیسے صفائی سے پورا الزام پاکستانی فوج پر جڑ دیاگیا، تاثر یہ ملتا ہے جیسے ہم پاکستانیوں نے فلسطینیوں کے خلاف آپریشن کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردن نے فلسطینیوں کی اچھی خاصی تعداد کو پناہ دی اور ان کا خیال رکھا۔بعد میں بعض فلسطینی گروپوں کے جارحانہ رویے کی بنا پر اردن کی حکومت کو تحفظات اور خطرات لاحق ہوئے۔ فدائین کے نام سے تنظیم کے چند ہزار فلسطینی گوریلے اس قدر بے لگام ہوئے کہ اردن کے شاہ کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ شاہ حسین نے ان گروپس کے خلاف کریک ڈائون کیا۔ اردنی فوج نے یہ آپریشن کیا اور اردن کے وزیراعظم وصفی التل(Wasfi Tal)اس کی لیڈ کر رہے تھے۔جنرل ضیاء الحق ان دنوں بریگیڈئر تھے، وہ فوجی ٹرینر کے طور پر اردن میں موجود تھے، کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اردنی فوج کے آپریشن میں کچھ مدد کی ، سٹریٹجی بنانے میں یا کہیں کچھ اور مشورہ وغیرہ۔ بنیادی طور پر یہ اردن کی حکومت اور فوج کی جانب سے بے لگام باغی شدت پسند فلسطینی گروپوں کے خلاف آپریشن تھا۔ بعد میں یاسر عرفات کے ساتھ اردنی حکومت کا معاہدہ ہوگیا اور وہ فلسطینی گوریلے لبنان چلے گئے ۔یہ آپریشن ستمبر میں ہوا تھا، فلسطینی اخبارنویس اسے بلیک ستمبر کہتے رہے۔بعد میں ایک فلسطینی شدت پسند گروہ بلیک ستمبر کے نام سے قائم ہوا اور اس نے انتقام لینے کی خاطر اردنی وزیراعظم وصفی التل کو قتل کر دیا، شاہ حسین پر حملے کی کوششیںبھی کرتے رہے۔ یہی گروپ تھا جس نے میونخ اولمپکس میں اسرائیلی ایتھلیٹ یرغمال بنا لئے تھے۔ دلچسپ بات ہے کہ ایک وقت آیا جب یاسر عرفات نے اسی بلیک ستمبر گروپ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کے یاسر عرفات اور پی ایل او کے ساتھ بعد میں خوشگوار تعلقات رہے، کہاجاتا ہے کہ پاکستانی عسکری ماہرین نے 1973ء کی جنگ میں فلسطینوں/عرب فوجوں کی معاونت کی۔اس آپریشن کے تین سال بعد 74ء میں پاکستان میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں یاسر عرفات شریک ہوئے ، ان کا شاندار استقبال ہوا۔ یہ درست کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان اور فلسطینی تنظیم کے مابین سردمہری کا تعلق رہا۔ اس کی وجہ آپریشن بلیک ستمبر نہیں بلکہ یاسر عرفات کے ذاتی دوست بھٹو کو پھانسی ملنا تھا۔ضیا دور میں ایسا ہی سردمہری پر مبنی تعلق شام سے بھی رہا۔ شام میں ’’ہم نے‘‘کون سا آپریشن کیا تھا؟ وہاں بھی بھٹو اور حافظ الاسد کے تعلقات کے باعث ایسا ہوا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کو دمشق میں جگہ ، سہولیات اور فنڈنگ دی گئی تھی، اگرچہ الحمدللہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ بات ایک ہی کالم میں سمٹ جائے، مگرتحریر میں منطقی تضادات اتنے زیادہ ہیں، تاریخ کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا گیا ہے کہ مکمل بات کہنا ضروری ہوگیا۔ اگلے حصے میں ان شااللہ دو تین مزید نکات پر بات کریں گے۔