مرزا غالب اُردو ادب کے نہایت متلوّن مزاج قسم کے شاعر تھے، کسی چیز کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے۔ اُن کی شاعری کا مطالعہ کریں تو کہیں وہ ’’اورنگِ سلیماں‘‘ کو اِک کھیل قرار دیتے نظر آتے ہیں اور کہیں ’’اعجازِ مسیحا‘‘ کو ایک معمولی بات کہنے پر بضد ہیں۔ کبھی دنیا کو بازیچۂ اطفال قرار دیتے ہیں تو کبھی خضرؑ و سکندر کے معاملات پر تنقید کرتے ملتے ہیں۔ اُن کی روایت شکنی کا تو یہ عالم ہے کہ نہ وہ سر میں تیشہ مار کے مر جانے والے فرہاد کے اخلاص اور نیک نامی کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ جلوۂ رَبی کی تب و تاب سے طور کے جل جانے کے واقعہ سے خوف زدہ ہو کر دیدارِ باری تعالیٰ کی تمنا سے دست بردار ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ تو ’ملزم‘ کی موجودگی کے بغیر فرشتوں کے لکھے جانے والے انسانی نامۂ اعمال کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور کہیں کہیں تو خود سری اور جسارت کی انتہا کرتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر کو یہاں تک مشورہ دے ڈالتے ہیں: کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رَب سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی! ذرا سا تأمل کریں تو یہ انوکھا شعر جہاں غالب کی جرأتِ رندانہ کی خبر دیتا ہے وہاں اس میں ایک شاعر کی دو انتہائوں کے مابین اعتدال اور توازن کا راستہ تلاش کرنے کی خواہش اور حسرت بھی جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ مرزا غالب کا یہ آئیڈیا آسمانی مسائل کا حل ہو نہ ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ ہمارے زمینی اور سماجی مسائل کا اِس سے بہتر حل پوری دنیا میں موجود نہیں، ثبوت کے طور پر پوری دنیا کی تاریخ پہ نظر دوڑائی جا سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور معتبر مثال خود اسلامی نظام حیات ہے کہ جس میں توحید اور رسالت کے اِقرار کے بعد پہلا درس ہی مساوات اور برابری کا دیا گیا۔ نہ صرف زبانی درس دیا گیا بلکہ عملی اظہار کے لیے بلال حبشیؓ کو عثمان غنی ؓ کے برابر لا کھڑا کیا گیا۔ دوسری طرف ایک غلام پیغمبر اعظمﷺ کا بیٹا کہلانے لگا۔ ہجرت کے بعد بلا تفریقِ دولت و غربت ایک مہاجر ایک انصار سے بغل گیر ہو گیا۔ عربی عجمی کی تفریق مٹ گئی۔ کالے کو گورے کا ہم سر قرار دے دیا گیا۔ آقا و غلام کے درمیان اونٹ پہ بیٹھنے کی باری مقرر ہونے لگی۔ دربان ہٹا دیے گئے۔ حکمران بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھانے کے پابند ہو گئے۔ خلفا لوگوں کے مسائل اور آراء جاننے کے لیے راتوں کو گلیوں بازاروں میں گشت کرنے لگے۔موجودہ دور میں بھی مساوات کی برکتیں ملاحظہ کرنا ہوں تو ہمسایہ ملک چین ہی کو دیکھ لیجیے، جو عمر کے اعتبار سے ہمارا چھوٹا بھائی ہے لیکن عمل کے لحاظ سے ایک جانی مانی ٹھانی ہوئی عالمی طاقت ہے ۔پہلے دن سے یہ طے کر لیا کہ مجرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، وہ کسی رعایت یا امتیاز کا مستحق نہیں ہوگا۔ دوسرے یہ کہ اپنے دیس میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ آمدنی والوں کے درمیان حائل فاصلے کو جلد از جلد ختم کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ جہاں مجرم کو عین موقع پہ سزا دے دی جاتی ہو اور جہاں وزیراعظم سائیکل پہ سواری کرتا ہو، اس کا بیٹا سکول جانے سے قبل اخبار بیچنے کو اپنے لیے عار نہ سمجھتا ہو اور جس ملک کا صدر اپنی تنخواہ کم کرنے کے لیے تحریری طور پر درخواست کرنے کی ہمت تک کر گزرتا ہو، وہاں ترقی کا راستہ کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ پھر ذرا اپنے قریب ترین ملک بھارت پر بھی نظر کر لیں کہ وہاں جاگیرداری اور وڈیرہ سسٹم کو پہلے دن ہی سے جھنڈی کروا دی گئی جس کی وجہ سے وہاں ہمارے جیسے مسائل نہیں ہیں اور آج وہاں کوئی بھی شخص دولت یا مربعوں کے بل بوتے پر اسمبلی میں نہیں پہنچتا بلکہ اپنی قابلیت اور عوامی قبولیت کی بنا پر یہ سنگ میل عبور کرتا ہے۔ انھوں نے Be Indian and buy Indian کا نعرہ لگایا تو عملی طور پہ ثابت کر کے دکھا دیا کہ وہ اپنی ضرورت کی ہر چیز خود بنا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں کھاد کی جو بوری ساڑھے تین ہزار میں بِک رہی ہے، وہ ہمسایہ ملک میں آٹھ سو میں دستیاب ہے۔ جو سکوٹر اِدھر لاکھ کا ہے، وہاں بیس پچیس ہزار کی اوقات میں بیٹھا ہے۔ ان کا جو روپیہ کچھ عرصہ قبل تک ہمارے روپے کا چھوٹا بھائی ہوا کرتا تھا، آج اُس کا تایا جان ہے۔ لیکن جہاں تک وطن عزیز کا معاملہ ہے اس کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ یہاں روز بروز غربت اور امارت کی درمیانی خلیج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چند خاندان، جن میں اب مخصوص عہدوں کا بھی اضافہ ہو چکاہے۔ وہ اپنے بے تحاشا اختیارات کو وائپر کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جس سے حتی الوسع سرمایہ کسی اجنبی سرزمین کی جانب دھکیلا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں آج غریب کی کمر جھک کے کمان بن چکی ہے اور امیر کی گردن تن کے تیر کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ زندگی کی اس تیراندازی میں سارا زور کمان کا صرف ہو رہا ہے جبکہ ٹارگٹ صرف تیر کے حصے آ رہا ہے۔ ہم اُس عظیم ہستیؐ کے پیروکار ہونے کے دعوے دار ہیں، جن کے نظام میں معمولی چوری پر بھی مالدار خاتون کا ہاتھ کٹتا نظر آتا ہے۔ جس میں خلیفۂ وقت کے سگے بیٹے کو کوڑے لگتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس میں دریائے دجلہ کے کنارے بھوکے کتے کی بھی ذمہ داری قبول کی جاتی تھی۔ جہاں حاکمِ وقت کے لیے ریشمی لباس پہننا، قیمتی سواری رکھنا، حتیٰ کہ چھنے ہوئے آٹے کی روٹی تک کھانا ممنوع ہے۔ جہاں فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے اور جہاں رعایا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور اجتہاد کے لیے آنکھیں کھلی رکھنے کی ہدایت ہے۔ آج یہ بات ہم پورے وثوق سے اس ملک کی فلاح کا دم بھرنے والوں کے گوش گزار کرنا چاہیں گے کہ وہ اس ملک کی ترقی کے نام پر جتنے مرضی ہوائی قلعے تعمیر کر لیں اس کی بہتری کی آڑ میں جتنے مرضی ملکوں کی سیر کر لیں، جتنے عزیزوں، اتحادیوں کو چاہیں نوکریاں، وزارتیں، سفارتیں اور قرضے دلوائیں۔ سرکاری درباری میڈیا پہ بیانات سے جیسا مرضی سماں باندھ لیں، لیکن ایک بات ضرور غور سے سن لیں کہ ملک کی ترقی کا آغاز اس نقطے سے ہو گا، جہاں ہمارے ہاں موجود دونوں انتہائیں باہم گلے ملیں گی۔ جہاں بُوٹے، شکورے اور رضیہ بیبیاں بھی بلاول، مریم، حمزہ اور مونس جیسی زندگی کا خواب دیکھ سکیں گی۔ مرزا غالب ہی کے الفاظ میں: دوزخ میں ڈال دے کوئی لا کر بہشت کو