بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گزشتہ ہفتے بھارت کے ناجائز زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کا دورہ کیا ہے۔ 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت کی اشتعال انگیز اور متنازعہ کارروائیوں کے بعد بھارتکے وزیرِ داخلہ کا یہ پہلا دورہ تھا۔ 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد، ریاست جموں و کشمیر (جس میں لداخ بھی شامل تھا) کو تقسیم کیا اور اس کی حیثیت کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں (یونین ٹیریٹریز) میں بدل دیا۔ یعنی جموں و کشمیر اور لداخ۔ اس کے نتیجے میں کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک مزید شدت پکڑ گئی اور انڈیا نے کشمیر کی سیاسی قیادت سمیت بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں اور لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا جبکہ ریاست میں کرفیو لگادیا گیا۔ اس دوران کورونا کی وباء نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو گئیں۔ کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370 کی نسبت شق 35 اے کے خاتمہ پر زیادہ تحفظات ہیں کیونکہ 35 اے کشمیروں کو خصوصی حقوق فراہم کرتا ہے جس کے تحت کسی بھی غیر مقامی شخص کو کشمیر کی شہریت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اسے کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جاسکتا ہے۔ اس شق کے تحت کسی بھی غیر مقامی فرد کے کشمیر میں جائیداد خریدنے پر پابندی تھی البتہ کشمیری تمام ہندوستان میں کہیں بھی جائیداد خرید سکتے تھے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شق 35 اے کے خاتمے کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کے لیے غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے اور انہیں ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں۔اس طرح مودی حکومت آئین کی شق 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ امیت شاہ نے حالیہ دورہ میں مقبوضہ کشمیر کی کسی سیاسی جماعت کے رہنما سے ملاقات نہیں کی جبکہ اس نے "تین خاندانوں" کو تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے بقول ان کے جموں و کشمیر کو "برباد کر دیا" ہے حالانکہ یہ بات وہ بھول گئے کہ انہی خاندانوں میں بی جے پی کے اِتحادی بھی رہے ہیں۔ مودی حکومت حالیہ دنوں میں یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات معمول پر آچکے ہیں جبکہ وزیر داخلہ امیت شاہ کا حالیہ دورہ اِس دعوی کی نفی کرتا ہے ۔ وزیرِ داخلہ نے دورے کے دوران صرف دربار منعقد کیا ہے جس میں وزیرِ موصوف اور بیوروکریٹس کے درمیان بات چیت ہوئی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اِس وقت کوئی منتخب مقننہ نہیں ہے اس لیے وہ کسی قانون ساز سے نہیں ملے۔ سول سوسائٹی کی کسی تنظیم نے رضاکارانہ طور پر ان سے ملاقات نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ اگر کسی سے بات کرنے کو تیار نہ تھے تو کسی کا ان سے بات کرنے کو بھی تیار نہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اپنے دورے کے اِختتام پر بھارتی وزیر داخلہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ "ڈاکٹر فاروق صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ میں پاکستان سے بات کروں۔ اگر میں بات کروں گا تو صرف جموں و کشمیر کے لوگوں اور اس کے نوجوانوں سے بات کروں گا، کسی اور سے نہیں"۔ اِس بیان سے مودی حکومت کی ذہنیت اور نیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک طرف کشمیری عوام اور رہنماؤں پر مسلسل دباؤ جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں ٹارگٹد ملٹری آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے تاکہ کشمیری عوام کا بلند مورال ختم کیا جا سکے۔ اِس سے پہلے 24 جون کو بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے ساتھ پہلی بار ایک ملاقات کی تھی جو کہ 5 اگست 2019 میں کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے کے بعد ہندوستان کی حکومتی قیادت کا کشمیری قیادت سے براہ راست ہونے والا پہلا رابطہ تھا حالانکہ انہی کشمیری رھنماؤں میں سے بہت سے افراد کو کریک ڈاون میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ تاہم اس ملاقات میں میرواعظ عمر فاروق سمیت کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے رہنماؤں بالخصوص آل پارٹیز حریت کانفرنس میں سے کسی کو بھی نہیں بلایا گیا تھا جبکہ اِجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں میں سے صرف محبوبہ مفتی نے انتخابی حلقوں کی حد بندی کی کھل کر مخالفت کی کیونکہ بھارت میں انتخابی حلقوں کی حد بندی کاعمل 2026 ء میں ہونا ہے جبکہ صرف کشمیر میں حد بندی کا قبل از وقت کرانا بذاتِ خود سوالیہ نشان ہے۔ ریاست کی سابق وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ "خطے میں بھارت کی غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی تبدیلیاں ھمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں." جہاں تک مقبوضہ کشمیر کے اِیشو پر پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کا بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ کا بیان ہے تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تصفیہ طلب معاملہ ہے جس کو بھارت نے اقوامِ متحدہ کے فورم پر تسلیم کیا ہوا ہے ۔جبکہ 1972 میں ہونے والے شملہ معاہدہ میں بھی بھارت اور پاکستان دونوں نے کشمیر کو ایک تصفیہ طلب مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر اِتفاق کیا کہ ان کے متعلقہ سربراہان مستقبل میں باہمی طور پر مناسب وقت پر دوبارہ ملاقات کریں گے اور اس دوران دونوں فریقین کے نمائندے مل کر پائیدار امن کے قیام اور تعلقات کو معمول پر لانے کے طریقوں اور انتظامات پر مزید بات چیت کریں گے۔ جن میں جنگی قیدیوں اور سویلین قیدیوں کی وطن واپسی، جموں و کشمیر کا حتمی حل اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے سوالات شامل ہیں۔ اَب جبکہ کشمیر کے تنازعہ کا حتمی طور پر حل طے ہونا باقی ہے تو مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کے متعلق وزیرِ داخلہ امیت شاہ کا بیان، شملہ معاہدہ سمیت، کشمیر کے تنازعہ پر اَب تک ہونے والے باہمی مذاکرات کی نفی ہے جو پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ پاکستان اور بھارتکے مابین پرامن اور دِیرپا تعلقات صرف اسی وقت ہی ممکن ہو سکتے ہیں جب کشمیر کے مسئلے کا تمام فریقوں کے لیے ایک قابلِ قبول حل تلاش کیا جا سکے۔