وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ستاون سے زیادہ اسلامی ممالک اپنی اصلیت، روح اور پالیسیوں کے اعتبار سے خالصتاً ’’قوم پرست سیکولر‘‘ ریاستیں ہیں۔ امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادکی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ جب کبھی انکے اپنے ملک،اپنی اتھارٹی اور اپنی سرحدوں کے تحفظ کا معاملہ آن پڑتا ہے ،تو ہر ملک کا حکمران اور بہت حد تک عوام بھی دین تو ایک طرف مسلک تک بھول کر صرف اور صرف قوم پرست محبِ وطن بن جاتے ہیں۔ گذشتہ ستر سالوں میں اس مسلم اُمّہ کے بیشترممالک سے ،بحیثیت مجموعی ایک ’’یہودی امت‘‘ کی حیثیت سے صرف اسرائیل نے جنگ کی ہے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کسی یہودی نے ان تمام جنگوں میں کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ امریکی، برطانوی، فرانسیسی یا جرمن ہے۔اپنی بساط کے مطابق اس سے جو بن پڑا، اس نے رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر اسرائیل کی نذر کردیا۔اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد 1948ء میں اس سے لڑنے والے صرف عرب ممالک ہی تھے۔ اسیلئے دنیا اسے عرب اسرائیل جنگ کہتی ہے۔ ملائیشیاسے ایران تک پھیلی ہوئی امت کے ملک اس جنگ میںخاموش تماشائی تھے۔ اگلی جنگ جو 1967ء میں ہوئی، اس میں بھی صرف عربوں نے حصہ لیا اور عربوں نے ہی شکست بھی کھائی۔ تیسری جنگ مصر اور اسرائیل کی قومی ریاستوں کے درمیان ہوئی اور مصر فتح یاب ہوا۔ چوتھی جنگ لبنان ، حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ہوئی اور باقی مسلم دنیا تماشہ دیکھتی رہی۔ اس جنگ میں اسرائیل کو ہزیمت اٹھانا پڑی، لیکن اس جنگ کی کوکھ سے ایک اور طرح کا تنازع کھڑا ہو ا، اور وہ بہت خطرناک تھا۔حزب اللہ کی کامیابی کو ایران کے کھاتے میں ڈال کر عرب بالا دستی کی مذموم جنگ شروع ہو گئی۔ آج اس جنگ کا ایندھن ، سادہ لوح مسلمان ہیںمگراس جنگ میں حصہ لینے کیلئے جس گرم جوشی ، جذبے اور کٹ مرنے کی ضرورت تھی وہ صرف اور صرف ’’مسالک کی بالادستی‘‘ کے نعرے سے ہی پیدا کیا جاسکتا تھا۔ ہر مرنے والا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھوں ہی مرا اور ہر مارنے والے نے بھی مسلمان ہی کو مارا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کو جنت کا پروانہ دینے والے ایک مسلک سے تعلق رکھتے ہیںاور دوسرے کو ایک اور مسلک والے نے جنت کی بشارت دی ہوتی ہے۔ قوم پرستی ایک ایسی لعنت ہے کہ یہ دین تو دورکی بات ہے، مسلک تک فراموش کرا دیتی ہے۔ جہاں کہیںاپنے ملک کا مفاد آگیا تو پھر کون سنّی کون شیعہ۔ ترکی کو صدیوں پرانا خلافتِ عثمانیہ کا خواب یاد آجاتا ہے اور قطر کو ہزاروں سال پرانی بابل و نینوا کی سرزمین سے اپنا تعلق۔ پڑوس میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ہم مسلک تھے، لیکن ایسے ایک دوسرے پربرسے کہ جیسے صدیوں کی دشمنیاں نکالیںگے۔ ان ساری منافقتوں کے باوجود ہر لڑنے والے نے یہی نعرہ بلند کیا کہ ہم اسلام کی سر بلندی اور امتِ مسلمہ کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ان دنوں ایک اور محاذ گرم ہو گیا ہے اوراس محاذ میں بالکل کسی کوبھی مسلک یاد رہا اور نہ اسلام۔آذر بائیجان، اپنے پڑوسی عیسائی ملک آرمینیا سے گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک خطے ’’نگورنوکاراباخ‘‘ پر لڑ رہا تھا۔ دنوں میںلڑائی تیز ہوئی تو ترکی کو سب مسلکی اختلاف بھول گئے،وہ آذربائیجان کے ساتھ عسکری طور پرشانہ بشانہ بھی کھڑا ہوگیا۔ دوسری جانب ایران کو روس کے ساتھ 1804ء کی جنگ بھی یاد آئی اور سویت یونین کے بالشویکوں کے ساتھ لڑائیاں بھی۔یہی وجہ ہے کہ ایران نے بظاہر اس سارے معاملے میں غیر جانب داری دکھائی اور فوری جنگ بندی پر زور دیا، لیکن آذربائیجان کی حکومت ،ایران پر براستہ روس آرمینیاکے عیسائیوں کی حمایت کا الزام لگاتی ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کون کس کے ساتھ کھڑا ہے، معاملہ ایک وضاحت کا ہے جو ہر مسلمان کے ذہنوں میں واضح ہونی چاہیے کہ اس وقت خطے میں جتنی بھی جنگیں چل رہی ہیں اور مسلمانوں کا کشت و خون ہو رہا ہے، اس کے پیچھے نہ دین ہے اور نہ مسلک۔ یہ علاقائی بالادستی کی جنگیں ہیں۔ یہ بتانِ رنگ و بو ہیں جو دلوں میں بسے ہوئے ہیں اورہر ملک اپنی اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق اپنی بالا دستی قائم کرنے یا اپنی سرحد کو بچانے میں لگا ہوا ہے۔یہی وجہ ہے بحرین اور متحدہ عرب امارات اس جنگ کے شعلوں کی تپش سے اڑ کر طاقتور اسرائیل کی گود میں جا کر بیٹھ چکے ہیں۔ نگورنوکاراباخ کا معاملہ بھی انسانی تاریخ میں قومی ریاستوںکے تصور سے جنم لینے والا المیہ ہے۔ یہ خطہ ہمیشہ سے ایرانی اور رومی جنگوں کا مرکز رہا ہے اور دونوں ممالک اس پر آج تک اپنا حق جتاتے رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے صرف تین سو سال کے اندر یہ حصہ دیگر آرمینیائی علاقوں کی طرح عیسائی ہو گیا تھا۔ ایران کے ساسانی حکمرانوں نے 387عیسوی میں اس کے کچھ حصے کو رومن بادشاہ سے چھین کر اپنا حصہ بنا لیا۔ جب مسلمانوںنے ایران کو فتح کیا تو یہ اسلامی سلطنت میں آگئے۔خطے پر بنو امیہ، بنو عباس، سلجوق اور عثمانی حکومت کرتے رہے ہیں اور آخر کارسویت یونین نے قبضہ کیا تو پھر، کیا آرمینیا کے عیسائی اور کیا آذر بائیجان کے مسلمان، سب کی عبادت گاہیں بند کر دی گئیں، اور ہر مذاہب کو ’’افیون‘‘ قرار دے کر ملک بدر کر دیا گیا۔ سویت یونین کاحصہ بننے سے پہلے خلافتِ عثمانیہ کی شکست کے بعدپر تھوڑے عرصے کے لئے اس پر برطانیہ نے بھی قبضہ کر لیاتھا۔ اس دوران نگورنو کارا باخ والے سویت بالشویکوں کے ساتھ ہو گئے کہ وہ ہمیں آزادی دلائیں گے، لیکن انہوں نے اسے آذربائیجان صوبے کا حصہ بنا دیا۔ جب سویت یونین ٹوٹا، ریاستیں آزاد ہوئیں ،تو نگورا کاراباخ والوں کے دل نے ایک بار پھر آزاد ہونے کی انگڑائی لی اور 1988ء سے لے کر آج تک آزادی کیلئے ہلکی پھلکی اور تیز جنگیں جاری ہیں۔ ترکی اسے ترک خلافت کا حصہ سمجھتا ہے اور آذربائیجان کا ساتھ دیتا ہے جبکہ ایرانی اسے ساسانی و صفوی دورِ حکومت کی یادگارخیال کرتے ہیں۔ ہر طرف جنگ کے بادل چھائی ہوئے ہیں،زمین پر انسانی بالادستی کی جنگ ہے مگر فریب کیلئے نعرہ اللہ کی بالادستی کا لگایا جاتا ہے۔ یمن سے لے کر شام تک کے سرحدی علاقے اسلام سے پہلے ایرانیوں کے زیر تسلط تھے، پھر رومیوں کے قبضے میں چلے گئے،ان میں الگ جنگ شروع ہے۔ آج یوں لگتا ہے کہ’’ بتانِ نگ و بو‘‘کا تعصب واپس لوٹ آیا ہے۔ مگر اب شاید پوری مسلم امت کیلئے انہی تعصبات کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آچکا ہے۔ فارس اور عرب کی تباہی کی روایات تو احادیث میںموجود ہیں مگرآذربائیجان کے ترکوں کے بارے میں بھی رسول اکرم ﷺ کی کئی احادیث ملتی ہیں۔ ایک جگہ فرمایا ’’ترک دو مرتبہ خروج کریں گے ، ایک مرتبہ آذربائیجان اور دوسری مرتبہ فرات کے کنارے‘‘(کتاب الفتن:1925)۔ دوسری جگہ فرمایا، ’’ترک دو مرتبہ خروج کریں گے، ایک آذربائیجان کے کھنڈرات میں اور دوسری مرتبہ جزیرہ میں۔ پازیب والی عورتوں کو پیچھے پالن میں بٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کرے گا، اور اس کی طرف سے ان پر بہت آفت آئے گی۔ اس کے بعد کوئی ترک باقی نہیں رہے گا‘‘(کتاب الفتن:905)۔ ملحمۃ الکبریٰ کا آغاز ہے جس میں عرب، فارس اور ترک سب کوچ کر جائیں گے باقی وہی رہے گا جو اللہ کے دین پر خالص ہو گا۔