رب العالمین کے حکم پرعیدالاضحی کے موقع ٰپرکرہ ارض پرموجود امت مسلمہ میںقربانی کاجذبہ دیکھیں تودل باغ باغ ہوجاتاہے مگردوسری طرف آج اس عظیم امہ کی مغلوبیت کاحال دیکھ کرسینہ چھلنی ہے ۔عیدالاضحی کے مقدس موقع پردنیا بھر میںقربانی کے لئے کتنی مالیت کے جانور فروخت ہوتے ہیں اس بارے میں کوئی(Credible)ٰٓیا معتبر اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں۔ البتہ کئی اہم مسلمان ممالک کی کل شرح آبادی میں سے مالداراورمتمول عوام کی شرح کوبنیادبناکرایک اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ عیدالاضحی پر کس ملک میں کتنی مالیت کے جانورقربان کئے جاتے ہے اورپھر قربانی کے بعد جمع ہونے والی کھالوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سالانہ عیدالاضحی کے موقع پراللہ کی رضاکے حصول کے لئے چاردانگ عالم کتنے کھرب خرچ کئے جاتے ہیں۔ مسلم دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک انڈونیشیا ہے جہاں 22کروڑ سے زائدشرح آبادی ہے جس میں سے ہرسال تقریبا 1کروڑ 8 لاکھ 40 ہزارلوگوں کی طرف سے قربانی کی جاتی ہے۔ مسلم ممالک میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر پاکستان ہے جہاں20کروڑ سے زائد شرح آبادی ہے اورہر سال تقریباً1کروڑ 22لوگوں کی جانب سے قربانی کی جاتی ہے۔پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن نے2019ء کی قربانی پراپنی رپورٹ میں کہاکہ عید قربان پرتقریباً 66لاکھ 80ہزار جانور قربان کیے گئے،جن میں 24لاکھ گائے،32لاکھ بکرے فروخت جبکہ10لاکھ بھیڑیں،دنبے اور 80ہزار اونٹ شامل ہیں۔اسے قبل پاکستان ٹینری ایسوسی ایشن کی جانب سے سال2018کے حوالے سے اعدادوشمارپیش کرتے ہوئے بتایاگیاکہ 2018ء میںعید الاضحی پر تقریبا 60لاکھ بڑے چھوٹے جانوروں کی قربانی کی گئی۔مسلم دنیامیں بنگلہ دیش آبادی کے لحاظ سے تیسرابڑامسلمان ملک ہے جہاں آبادی 18کروڑسے زائدہے اس میں تقریبا80لاکھ 72ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔مصر آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیامیں چوتھے نمبرپر ہے جہاں کی آبادی 8کروڑسے زائد ہے اور یہاں تقریبا62لاکھ 23ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیامیں ترکی پانچویں نمبرپر ہے جہاںکی شرح آبادی 7کروڑ سے زائدہے اور یہاںتقریبا48لاکھ 20ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ مراکش میںتقریبا8لاکھ 40 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ عراق میں تقریباً 4 لاکھ 72ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ الجیریا میں تقریباً 4 لاکھ 12 ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ متذکرہ اعدادوشمار کے مطابق یہ 6کروڑ 20 لاکھ 93ہزار قربانی کرنے والے افراد بن جاتے ہیں۔ اگر اس میں دیگر تمام مسلم ممالک کے صرف 50لاکھ اور غیرمسلم ممالک بالخصوص بھارت کے مسلمانوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ مجموعہ 7کروڑ 70لاکھ 93ہزار بن جاتا ہے۔ فرض کرتے ہیں یہ پونے 8کروڑ لوگ مل کر 3کروڑ جانور ذبح کرتے ہیں تو ان 3کروڑ جانوروں کے گوشت کا اوسطاً مجموعی وزن کتنا ہوگا؟ ہم اس کو اس اندازے سے حل کرتے ہیں کہ چھوٹے اور بڑے جانور کا اوسط وزن 50کلوگرام فکس کردیتے ہیں تو یہ ایک ارب 50کروڑ کلو یعنی 3کروڑ 75لاکھ من گوشت بن جاتا ہے۔ اگر ہم اس گوشت کی فی کلو قیمت 500 روپے ہی رکھیں تو اس گوشت کی کل قیمت 7کھرب 50ارب بن جاتی ہے۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اور 3کروڑ جانوروں کی کھالوں کا حساب لگاتے ہیں۔ ہم چھوٹی اور بڑی کھال کی اوسط قیمت 1800روپے ہی رکھ لیتے ہیں تو اس کا مجموعہ 54ارب روپے بن جاتے ہیں۔ جانوروں کی ہڈیاں اور آنتیں وغیرہ بھی فروخت ہوتی ہیں، لیکن ہم ان کو شمار میں نہیں لارہے۔ یوں امت مسلمہ ہر سال 8کھرب اور 4ارب کی قربانی کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ہرمسلمان مردوزن بالغ ،عاقل اور صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے حتی کہ اس کا عیدگاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ سوال یہ ہے کہ اپنے رب کے حکم کے سامنے اس قدر تسلیم ورضابننے والی امت مسلمہ کو آخر کیا ہو گیا کہ وہ مغلوب بنادی گئی اورآج جب امہ مسلمہ عید الاضحی منارہی ہے کہ بھارت اور اسرائیل مسلسل اورلگاتار کشمیری اورفلسطینی مسلمانوں کو ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیںاوران کاخون بے دریغ بہایا جا رہا ہے۔ افواج ہنود کشمیرمیں اورصیہونی فوجیں فلسطین میں مسلمانوں کوذبح کررہی ہیں جبکہ ہندوستان میں پہلے ہی کی طرح آج بھی مسلمان بدستور زیرعتاب ہیں ۔دونوں خطوں میں مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا جا رہا ہے اورمسلما ن ممالک پرمسلط حکمران اس سلسلے میں خاموش بنے ہوئے ہیں۔محض اغیارکی خوشنودی بجالانے کے لئے مسلمان ممالک کے یہ حکمران خاموش بیٹھے ہیں ۔ افسوس صدافسوس!وہ امتِ مسلمہ جسے اللہ نے خیر امت بنایا گیاجسے مالی وجانی طورپر قربانی کاحکم دیاگیاہے،اس امت کو فریضہ شہادتِ حق کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ۔مگرآج مغلوب المغلوب بنی ہوئی ہے ۔ شکوہ مومنین توبڑی چیزہے ،پوری امہ آہ !شکوہ مومنین کیاشکوہ ملک سے بھی محروم ہے۔شکوہ ملک جس چیزکانام ہے وہ ہرقسم کے خارجی وداخلی اثرات سے آزاد اورپاک ملکی پالیسی ہے ۔داخلی اطمینان اور سرحدوں کی قوت وشوکت ہے ،دوسرے ممالک میں عزت ومنزلت کامقام ہے ،قوموں کی برادری میں سربلندی ہے،افرادِ قوم کااطمینان معاشی ومعاشرتی خوشحالی ہے لیکن خوردبین لگا کربھی آپ کویہ اوصاف کسی مسلمان ممالک میں نہیں ملتے بلکہ مسلمان مملکتیں اپنے اندرکئی گروہوں میں بٹ کرایک دوسرے کے خلاف ’’سردجنگ اورپراکسی وار‘‘لڑرہی ہیں اوراپنے ہی کلمہ گو بھائیو کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں اوراغیاراس بات پرخوش ہیں کہ ہزاروں میل دوربیٹھ کروہ ان پرحکومت کررہے ہیں۔اگردنیاوی دولت سے اللہ نے کچھ اسلامی ممالک کومالامال فرمایاہے توان کی دولت سے فائدہ بھی اغیار اٹھا رہے ہیں، ان مسلمانوں کے خزائن اغیارکے تصرف میں ہیں اوراسی سرمائے سے مسلمان ممالک کواسلحہ تیارکرکے فروخت محض اس لئے کیاجاتاہے کہ اس کاتجربہ بھی تم دوسرے مسلمان ممالک کی آبادی پرکرو۔پھرشکوہ دیں یہ ہے کہ اللہ جس کے حاکم ہونے کااقرارہم سب کرتے ہیں (ان الحکم للہ) جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اسی کاحکم اورقانون چلے اورجس کوآقامانا ہے اس سے انحراف کھلی بغاوت ہے ۔جب شکوہ مومنین ہواورنہ شکوہ ملک ہونہ شکوہ دین توپھرآزادبندہ مومن کہاں ملے گا اوریہی وجہ ہے کہ عیدکادن ہجوم ِ مومنین کے سواکچھ نہیں۔