اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوںمسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف مارچ کو موخر کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمن کو آمادہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ہونے والی طویل ملاقات میں طے کیا گیا کہ حکومت ہٹانے کے لئے مشترکہ کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں کی جلد کانفرنس بلائی جائے گی۔ بعدازاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنمائوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کا جمہوری اور آئینی طریقہ صرف نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔ کسی حکومت کے خلاف تحریک کی غرض و غایت اور اس کا طریقہ کار ہمیشہ اہم ہوتا ہے۔ پھر سیاسی اور عوامی سطح پر تحریک کے ایجنڈے کی پذیرائی کے امکانات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں کرپشن‘ مذہبی کارڈ ،فوجی اقتدار اور انتخابی دھاندلی کے معاملات حکومتوں کو ہٹانے کا سبب رہے ہیں۔ قومی سیاست اور جمہوری اقدار کی صورت گری گزشتہ چند برسوں کے دوران استحکام کی طرف بڑھی ہے۔2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ میثاق جمہوریت کے بعد بننے والی یہ پہلی حکومت تھی۔ پانچ سال کے دوران وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف سمیت اراکین کابینہ پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے۔ ان الزامات میں سے کچھ عدالتوں میں درست ثابت ہوئے اور قصور وار افراد کو سزائیں ملیں۔ اسی زمانے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف پی پی حکومت کے خلاف کالا کوٹ پہن کر خود عدالت میں حاضر ہو گئے۔ میاں نواز شریف بعدازاں اپنے اس عمل پر شرمندگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر کے اور میثاق جمہوریت میں ایک دوسرے سے باندھے پیمان کی خلاف ورزی کر کے مسلم لیگ ن نے جمہوریت کو کمزور کیا۔ 2013ء کے عام انتخابات کا نتیجہ آیا تو پورے ملک سے دھاندلی کی شکایات ملنے لگیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ جماعت تحریک انصاف تھی۔ عمران خان نے جب انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی تو سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی نتائج کو ریٹرننگ افسران کا مرتب کردہ قرار دیا۔ پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت یا کسی اور وجہ سے میاں نواز شریف کی حکومت کو ہٹانے کے لئے عملی طور پر میدان میں آنے کوتیار نہ ہوئی۔ تحریک انصاف نے جب اپنے لئے پارلیمانی اور انتظامی سطح پر داد رسی کا کوئی دفترمددگار نہ دیکھا تو اس نے چار حلقوں کے انتخابی نتائج کی پڑتال کا نسبتاًمحدود مطالبہ کر دیا۔ حکومت نے اس پر بھی توجہ نہ دی۔ جس پر عمران خان نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر 126روزتک تاریخی دھرنا دیا۔ اس وقت تک حکومت کے جرائم میں ماڈل ٹائون میں تحریک منہاج القرآن کے 14کارکنوں کی ہلاکت کا بھیانک جرم میں شامل ہو چکا تھا۔ دھرنے نے رائے عامہ کو حکومت کے خلاف استوار کر دیا۔ سانحہ اے پی ایس کی وجہ سے یہ دھرنا ختم کر دیا گیا اور حکومت نے برائے نام انتخابی اصلاحات کرنے اور چار حلقے کھولنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس دھرنے کے بعد تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس آ گئی جہاں ن لیگ، پیپلز پارٹی ‘ محمود اچکزئی‘ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن نے تشنیع کے خوب تیر برسائے اور تحریک انصاف کو ناتجربہ کاری کا طعنہ دیتے ہوئے سبق دیا کہ پارلیمنٹ سے باہر حکومت کو ہٹانے کی کوششیں غیر آئینی ‘ غیر قانونی اور غیر جمہوری ہوں گی۔ 2018ء کے انتخابات میں عوام کی اکثریت نے تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف کے منشور میں کرپشن کا خاتمہ‘ معاشی بحالی‘ پولیس اور عدالتی اصلاحات‘ صحت سہولیات کی فراہمی، بے گھروں کے لئے 50لاکھ گھروں کی تعمیر‘ زرعی ترقی اور ماحولیاتی بہتری کے اقدامات شامل تھے۔ وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلی دو ترجیحات پر بھر پور توجہ دی۔ سابق حکمرانوں اور ان کے معاون سیاسی افراد اور انتظامی افسران کے خلاف متعدد مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ کئی مقدمات پر تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور صف دوم کے بہت سے رہنما قانونی عمل کا سامنا کر رہے ہیں۔ تاحال عوام کو مہنگائی کے سوا موجودہ حکومت سے کوئی خاص شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ مہنگائی کی وجوہات سے اب ہر خواندہ و ناخواندہ آگاہ ہے اور سابق حکومتوں کی طرف سے اربوں ڈالر کے قرضوں کی واپسی کو اس کا سبب سمجھتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے خاندان کے دیگر افراد پر ریاستی وسائل کے ناجائز استعمال کے الزامات رہے ہیں۔مولانا 2018ء کے انتخابات میں بری طرح شکست کھا چکے ہیں۔ وہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ مولانا سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام ان کے سوا باقی تمام جماعتوں کے لئے کسی نہ کسی شکل میں اب بھی فائدہ بخش ہے۔ یہ احساس ان کے لئے سوہان روح ہے اور وہ ہر قیمت پر مدارس کے بچوں کو ختم نبوت اور آزادی مارچ کے نام پر سڑکوں پر لا کر حکومت کو بے بس کرنا چاہتے ہیں۔ ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ سیاست کھیل نہیں ایک سنجیدہ سماجی تحریک ہے جسے ہر قیمت پر آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اس بات کا ادراک ہے اس لئے وہ مولانا فضل الرحمن سے حکومت مخالف مارچ موخر کرنے کے لئے بات کرنا چاہتی ہیں۔ ان حالات میںجب اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کی تقریر نے ہر معترض کا منہ بند کر دیا ہے حکومت کے خلاف ناکام تحریک چلانے کا خطرہ مول لینے سے اپوزیشن کی سیاست طویل مدت کیلئے تباہ ہو سکتی ہے۔