دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات سے ذراقبل اور میاں نوازشریف کے لندن جانے کے بعداور پھر پی ڈی ایم کے قیام کے ساتھ سیاسی وسماجی سطح پر پی ایم ایل این نے ایک مختلف سیاسی جماعت کا تاثر قائم کروایا۔ مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک نیا موڑ تھا، مسلم لیگ ن کے مختلف سیاسی جماعت ہونے کے تاثر نے سیاسی ورکر ز کے اندر رومانوی طرز کا تحرک پیدا کیا،شاید یہی وجہ تھی کہ اس دوران ضمنی انتخابات میں اس کا ووٹرز زیادہ سرگرم دکھائی دیا۔کراچی کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی کارکردگی قطعی بُری نہیں رہی ، اسکے حوالے سے جس کارکردگی کی توقع کی جارہی تھی ،رزلٹ ویسا ہی آیا ،اگر اس کی مقامی قیادت ووٹر ز کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہوجاتی تو رزلٹ مختلف ہوجاتا۔میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز کے بیانات اگرچہ سخت رہے ہیں ،مگر ایک بڑی آبادی ، ن لیگی قیادت سے ایسے بیانات سننے کی ہمیشہ متمنی بھی رہی ہے۔ووٹ کو عزت دو،ووٹ کو چوری نہ ہونے دو،یہ ایسے نعرے ہیں ،جو ملک کی سیاسی و انتخابی تاریخ میں اس لحاظ سے بہت اہمیت رکھتے ہیں کہ یہاں ازخود سیاسی جماعتیں ووٹ مسترد اورووٹ چوری کرنے کے عمل کا حصہ رہی ہیں۔یہ نعرے اس بات کا ثبوت تھے کہ اب انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی نہ تو خود کوشش کی جائے گی اور نہ ہی دوسری طاقتوں کو ایسا کرنے دیا جائے گا،میرا خیال ہے کہ ڈسکہ کا الیکشن اس کی ایک مثال ہے۔مگر ڈسکہ کا ضمنی الیکشن جب دوسری بار ہوا تو حمزہ شہباز شریف نے اس کا کنٹرول سنبھالا جو ضمانت پر رہا ہوچکے تھے اور بعدازاں جب ترین گروپ کی تشکیل ہوئی تو میاں شہباز شریف پارٹی کے معاملا ت سنبھالتے دکھائی دیے۔اس دوران مریم نوازاور میاں نوازشریف پچھلی صف پر چلے گئے۔ترین گروپ کی تشکیل کے وقت پی ایم ایل این کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ حکومت کے خلاف عوام کے اندر ایسی مہم چلاسکتی تھی جس سے یہ پیغام جاتا کہ پی ٹی آئی کے اندر جتنے لوگ ہیں ،اُن میں زیادہ ترملکی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات کے اسیر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے مالیاتی سیکنڈل بھی سامنے آرہے ہیں ،واضح رہے کہ رنگ روڈ کا سیکنڈل اسی عرصہ میں آیا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان اور اِن کی پارٹی نے پی ایم ایل این کی تمام قیادت اور خاص طورپر شریف فیملی کے حوالے سے سماجی سطح پر بھرپور تاثر قائم کروایا کہ یہ سب چور ہیں،یہ تاثر اس قدر مضبوط اور منظم طریقے سے دیا گیا کہ پی ایم ایل این اپنے اُوپرسے اس تاثر کے سائے کو مدہم کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔لیکن جب پی ایم ایل این کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے اُوپر سے اس تاثر کو ختم کروائے اور پی ٹی آئی کے لیے مشکلات پیدا کرکے ایک نئی صورتِ حال کو وقوع پذیر کرے ،میاں نواز شریف اور مریم نواز پچھلی صف پر چلے گئے۔پی ایم ایل این ہمیشہ متذبذب رہتی ہے۔یہ ایک قدم آگے جاتی ہے تو دوقدم پیچھے ہٹنے میں بھی بہت عجلت کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جہانگیر خان ترین نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت نہ بننے دیا، حالانکہ دوہزار تیرہ کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف سیاسی پارٹی کے طورپر بہتر کارکردگی دکھاکر ایک صوبے میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔دوہزار تیرہ کے بعد عام انتخابات دوہزار اَٹھارہ تک عمران خان سے دوبڑی غلطیاں ہوئیں ،جو اِن کی سیاسی طاقت کو کھاگئیں ،ایک غلطی طویل دھرنا دینا تھا،حالانکہ دھرنا دینے سے قبل اور دھرنے کے ابتدائی دِنوں میں پاکستان تحریکِ انصاف انتخابات میں دھاندلی کو ایک قومی مسئلے کے طورپر اُجاگر کرچکی تھی ۔دھاندلی کا قومی سطح پر مسئلہ بن کر سامنے آنا انتخابی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ یہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ جہانگیر خان ترین نے کسی ذاتی ایجنڈے کی بنیاد پر اُس وقت نئے لوگوں کو پی ٹی آئی کا حصہ بنایا ،میرا خیال ہے کہ جہانگیر خان ترین نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے مطابق فیصلہ کیا تھا،گویا اِن کی سیاسی سوجھ بوجھ انتہائی روایتی نوعیت کی ہے ،کہ کسی طرح ،کسی بھی قیمت پر حکومت بنانی چاہیے ۔حالانکہ حکومت بنانا اور الیکشن میں جیتنا ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ،کامیابی کا معیار یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں میرٹ پر اپنی کارکردگی کا ثبوت دیں اور پھر اپنی کارکردگی کو مزید وسعت سے ہمکنار کرنے کی حکمتِ عملی وضع کرتی رہیں۔پی ٹی آئی نے الیکٹ ایبلز پر انحصار کرکے دوہزار اَٹھارہ میں حکومت تو بنا لی لیکن یہ حکومت اس وقت تک عوام کے لیے نیا کیا کرسکی ہے؟یہ خود کو پچھلی حکومتوں سے مختلف ثابت کرنے میں ناکام رہی ،اس عرصہ میں پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین نے اپنا خود بھی نقصان کیا ہے۔ یہ محض بہ وقتِ ضرورت ایک گروپ بنا کر اپنے ہونے کا ثبوت د ینا ہے ،ایک سیاست دان کے منصب پر فائز ہونا ،شاید اِ ن کے بس کی بات نہیں ہے۔