سال 1994 ء کے بعد خطے میں امریکی دلچسپی اُس وقت ایک بار پھرواپس لوٹ آئی،جب ارجنٹائن کی حریف کمپنی کے مقابلے میں امریکی کمپنی Unocalکے لئے ترکمانستان سے بھارت تک بچھائی جانے والی مجوزہ گیس پائپ لائن کی اجارہ داری اور افغانستان سے محفوظ را ہداری درکار تھی۔اس مقصد کے حصول کے لئے افغان وار لارڈز میں باہم خون ریزی کا خاتمہ ضروری تھا۔ پاکستانی مدرسوں سے فارغ التحصیل افغان مہاجرین کی ایک پوری نسل اچانک جیسے آسمان سے اتری اور چمن، سپن بولدک ،ہرات شاہراہ پرپیش قدمی کرتے ہوئے راتوں رات مجوزہ پائپ لائن کا راستہ کھولتی چلی گئی۔ امریکی اس وقت تک آنکھیں بند کئے رہے جب تک انہیں کابل پر طالبان کے قبضے کی امید باقی رہی۔افغانستان میں بھارت کی آئے روز بڑھتی مداخلت کے پیش ِنظر پاکستان کے لئے مگر ایسا ممکن نہیں تھا۔ اپنے دوسرے دور حکومت میں نوا زشریف ایک بدلے ہوئے شخص کے طور پر لوٹے۔ یہی دور تھا جب انہوں نے مغربی اور بھارتی رہنمائوں کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات اور خفیہ مراسم استوار کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ 1998ء میںجب عسکری اداروں اور فارن آفس کی پیٹھ کے پیچھے ان کے خاص نمائندے کشمیر سمیت دوسرے معاملات پربھارتیوں کے ساتھ خفیہ بات چیت میں مصروف تھے تووہ خود صدر کلنٹن کے ساتھ مل کر ریٹائرڈ کمانڈوز پر مشتمل ایک سپیشل ٹاسک فورس کے ذریعے اسامہ بن لادن کو اغواء کرنے جیسی احمقانہ منصوبہ سازی میںمگن تھے۔کشمیرسمیت دیگر معاملات پر ہونے والے ان مذاکرات میں طے پانے والی جزئیات سے سلامتی کے اداروں کو لا علم رکھا گیا ۔ چنانچہ جب واجپائی کی بس لاہور پہنچی تو ہمارے اداروں میں سے کچھ طاقتور اشخاص اس سے پیشتر مسئلہ کشمیر کو اپنے تئیںعالمی سطح پر اجاگر اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے خفیہ عسکری منصوبے پرخاطر خواہ پیش قدمی کر چکے تھے۔ کارگل پر عالمی حمایت اور متوقع نتائج ملتے ہو ئے نظر نہ آئے تو وزیرِ اعظم کے ہاتھ پائوں پھولنا شروع ہو گئے۔ ہفتہ دس دن امریکی صدر سے تنہائی میں ملاقات کے لئے منت سماجت کرتے رہے۔ ملاقات کے لئے امریکی صدر کی شرط غیر مبہم تھی۔بالآخر چوٹیوں پر سے لڑنے والوں کی غیر مشروط واپسی ہی کوقبول کرنا تھا تو اس کے لئے واجپائی سے عین جنگ کے دوران زیرِ زمین رابطوں اور صدر کلنٹن سے کامل تنہائی میں ملاقات پر اصرار کیوں کر ضروری تھا؟ سال 2008 ء میںواپس لوٹے تو نواز شریف کا دل عسکری اداروں سے متعلق بد گمانی اور رنج و بغض سے بھرا ہوا تھا۔ تیسری بار وزیراعظم بنے تو انتہا پسند بھارتی قیادت سے ذاتی مراسم کی پینگیں پہلے سے بڑھ کر بڑھائی جانے لگیں۔ اداروں کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے مودی کی تقریب حلف برداری میں جا پہنچے اور سارک سربراہوں کی قطار میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ اس دورے میں ،ہندوستان آئے ہوئے کسی پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے کشمیری رہنمائو ں سے تاریخ میں پہلی بار ملاقات سے انکارکیا گیا۔ بھارتی کاروباریوں سے اپنے بیٹوں سمیت مگر ان کے گھروں میں جا کر ملتے رہے۔ دور دراز مقامات پر خفیہ ملاقا توں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ کہیںکوئی اعلامیہ جاری ہوا بھی تو کشمیر کے ذکر سے خالی رہا۔ بدنام زمانہ پاکستان دشمن بھارتیوں کو ذاتی مہمانوں کے طور پر بلایا گیا۔ اداروں کے ساتھ مل کر قومی اہداف کے حصول میں یکسو ہوکر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی بجائے انہیں شرمسار کرنے کے لئے وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں قائم ایک منظم میڈیا سیل کو ’ڈان لیکس‘ جیسے منصو بے تفویض کئے گئے ۔اپنے ہی اداروں کے متعلق دنیا بھی میں بدگمانی پھیلانے کی منظم مہم چلائی گئی۔ پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا۔ امریکی افغانستان میں اپنی تاریخ دہرا رہے ہیں جبکہ عمران خان امریکی جنگ لڑنے سے انکاری ہیں۔ ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں کہ اس سے مفَر دانشمندی ہرگزنہیں۔دوسری طرف ایک بے حد موثر اور طاقتور طبقہ ایک مربوط نیٹ ورک کی صورت میں عمران حکومت کے خلاف سر گرمِ عمل ہے۔ پاکستانی میڈیا کا ایک موثر حصہ اور مغربی میڈیا کی ارد و نشریات والے اس گٹھ جوڑ کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ۔اس ساری کش مکش میںکچھ خاص قوم پرست جماعتوں کی بن آئی ہے۔ مغربی دارلحکومتوں میں مورچہ بند پاکستان مخالف انڈین کرانیکلز نیٹ ورک اپنی جگہ پر سر گرمِ عمل ہے ۔حسین حقانی ٹویٹر پر پاکستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد ’آئرن بردرز‘ کو طعنے کس رہے ہیں۔ پاک چائنہ تعلقات کو نشانہ بنا نے کے علاوہ اس نیٹ ورک کا بنیادی ہدف دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہی طالبا ن کی پشت پر ہے۔اس باب میں بھارتی حکومت اور میڈیا،کابل میں پاکستان مخالف گروہ اورپاکستان کے اندر اسٹیبلشمنٹ مخالف نیٹ ورک پوری طرح ہم آواز ہیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی سے ان کی تمام تر امیدیں وابستہ ہیں۔’نظریاتی‘ تو میاں صاحب کبھی بھی نہیں تھے۔اپنی اور اپنی صاحبزادی کی تمام تر تلخ نوائی کے باوجود،آج بھی نہیں ہیں۔ دونوں کی حمایت پر کمر بستہ مغرب زدہ لابی بھی اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے۔ تاہم جمہوریت پسند لبرلزکو امید ہے کہ اب کی بارمیاں صاحب کو ’حدیبیہ ‘ جیسا ریلیف ملا ،تو پہلے سے کہیں بڑھ کر میلے دل کے ساتھ لوٹیں گے۔افغانستان میں ہمیں ایک حکومت سے نہیں،خود ترحمی کے مارے ایک مایوس گروہ سے پالا پڑا ہے۔پاکستان کے خلاف مغلظات بکنے والاافغان کارندہ لندن میں نواز شریف سے کیا امید لے کرملنے پہنچا ؟ اپنی موجودہ حیثیت میں عدالتوں کو مطلوب میاں صاحب افغانستان کو کیا دے سکتے ہیں؟ملاقات میں پاکستان کی افغان پالیسی کے بارے میں ان کی رائے کیا رہی ہو گی ، کیا اندازہ کرنا مشکل ہے؟ مسلم لیگ سنٹرل پنجاب کے متوسط اور زیادہ تر نچلے طبقے کے روایت پسند شہریوں پر مشتمل ایک بڑی جماعت ہے۔ نواز شریف اور ا ن کی بیٹی کے سامنے مگر نااہلی کی پتھریلی دیوار کھڑی ہے۔ نفرت انگیزی سے گریزبرتنا باپ بیٹی کے سیاسی وجود کے لئے زہرِ قاتل ہے۔ حالیہ دنوں صاحبزادی کشمیر میں اس طرح آگ اگلتی پھریں کہ ذاتی اور قومی مفادات میںامتیاز بھول گئیں۔ٹویٹر پر انہوں نے خود اور اپنے سوشل میڈیا کے کارندوں کے ذریعے پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے میں کیا کسر باقی چھوڑی ہے؟اس سب کے باوجود ، کثیر الجماعتی جمہوری نظام کے لئے مسلم لیگ ن کی بقاء قومی تقاضہ ہے ۔ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ قومی مفادات کی نگہبانی تو پاکستانی قوم خود کر سکتی ہے۔تاہم ضروری ہے کہ جماعت کی بقاء کے لئے متین مزاج لیگی اکابرین خود بھی کچھ ہمت باندھیں۔