اوریا مقبول صاحب نے اپنے مقبول ٹی وی شو میں میرے گزشتہ کالم کا حوالہ دے کر مریم مسلم لیگ کی تشکیل اور ن لیگ کی تقسیم کے امکانات پر بات کی تو کئی دوستوں اور قارئین نے موضوع میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے مزید جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ تازہ معلومات بہرحال کسی مشینی عمل سے تجسیم نہیں ہوتیں، جو کچھ رونما ہوا پیش کر دیا البتہ مسلم لیگ ن کی کمزور ہوتی حیثیت کا تجزیہ حالیہ واقعات کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرسکتا ہے۔ محمد خان جونیجو پاکستانمسلم لیگ کے سربراہ تھے،اسی مسلم لیگ میںسے ن لیگ نکلی تو یہ ایک شخصیت سے منسوب ہو گئی۔ مسلم لیگ کی پیشانی پر نواز لیگ کی مہر ظاہر کرتی ہے کہ نوازشریف کی ملکیت ہے۔ ملکیت کے اصول کو پیش نظر رکھیں تو وراثت کے طور پر یہ جماعت مریم نواز کی جائیداد ہے۔ ہاں کوئی جماعت داخلی جمہوری نظام رکھتی ہو اور اراکین آزادانہ اپنی رائے دینے کے قابل ہوں تو شاید مریم نواز کے چچا‘ چچا زاد یا پھر خاندان سے باہر کا کوئی سینئر رہنما اس جماعت کا سربراہ بن جاتا۔ مسلم لیگ ن قائم ہوئی تو اسے چلانے کے لیے سرمایہ تاجر اور سرمایہ دار طبقات نے فراہم کیا۔ خاص طور پر وہ کاروباری افراد جو بھٹو دور میں نیشنلائزیشن پالیسی سے متاثر ہوئے۔ سمجھ لیں یہ لوگ مسلم لیگ ن کی اے ٹی ایم مشین تھے۔ ن لیگ نے مخصوص برادریوں اور نسلوں کے لیے اپنے بازو کھول دیئے۔ ہر اہم عہدے اور منصب پر بٹ‘ ڈار‘ خواجہ اور میر ترجیحاً تعینات کئے جاتے۔ حتیٰ کہ آرمی چیف بھی ’’بٹ‘‘ لانے کی کوشش کی گئی۔ نئی جماعت چونکہ جنرل جیلانی اور ضیاء الحق کی سرپرستی میں رہنے والے تشکیل دے رہے تھے اس لیے ریٹائرڈ جرنیلوں کی خاصی تعداد اس کا حصہ بنی۔ یوں اس کا مزاج فوج نواز ہوتا چلا گیا۔ افغان جہاد کے دوران چونکہ ہمارے سکیورٹی اداروں کا جھکائو جہادی سرگرمیوں کی طرف تھا اس لیے نوازشریف نے اسامہ بن لادن سے رابطے بڑھائے۔ اسامہ بن لادن سے بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے خطیر رقم لینے کی بات ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کو سب سے پہلی اتحادی بنایا۔ مسلم لیگ ن کو بڑی جماعت کا مقام دے کر جب دائیں بازو کی لگ بھگ تمام جماعتوں کہ اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل کیا گیا تو گویا اسٹیبلشمنٹ نے اعلان کر دیا کہ پاکستان میں دائیں بازو کی نمائندگی مسلم لیگ ن کرتی ہے۔ مسلم لیگ ن جب تک اپنی اے ٹی ایمز‘ بھٹو مخالف ووٹ‘ فوج نواز فکر اور دائیں بازو کی نمائندگی سے جڑی رہی ایک مضبوط اور مقبول جماعت رہی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جس روز خلافت کی ذمہ داری قبول کی اسی روز کاروبار چھوڑ دیا۔ سرکاری خزانے سے اس قدر اجرت لینے پر آمادہ ہوئے جو ایک اوسط مزدور روزانہ کماتا۔ یہ اصول جدید جمہوری نظام میں بھی موجود ہے۔ امریکہ میں نامور وکیل باراک اوبامہ صدر بنتے ہیں تو اپنی پریکٹس کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ انگلینڈ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن صحافی ہیں‘ مضامین لکھ کراور لیکچر دے کر معقول رقم کما لیتے تھے‘ اب انہیں وزیراعظم بننے کے بعد اخراجات پورے کرنے میں مشکل کا سامنا ہے۔ بھارت کے اکثر رہنما ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہاں والے لیکن وہاں جیوتی باسو کو مثال قرار دیا جاتا ہے جو لگ بھگ 35 سال مسلسل مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ رہے لیکن ریٹائر ہو کر جب گھر گئے تو کھری چارپائی ،پانچ مرلے کا مکان‘ اے سی اور گاڑی کے بنا باقی زندگی گزاری۔ کوئی فرد جب کسی گروہ‘ تنظیم یا سماج کا رہنا بنتا ہے تو ذاتی نفع نقصان سے ماورا ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو اس کے ذاتی مفادات بار بار تنظیمی اور قومی مفادات کی راہ میں آکھڑے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کو جن عناصر نے ایک مقبول جماعت بنایا وہ نظر انداز ہوتے گئے۔ سب سے پہلے ضیاء الحق کی فرزندی والا بیان اور قبر پر فاتحہ کی تصاویر غائب کی جانے لگیں۔ بھارت کے ساتھ رابطے بڑھے تو بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔ اٹل بہاری واجپائی نے مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر اعلان لاہور کیا تو اسے عمومی طور پر سراہا گیا لیکن تعلق کی بنیادی اپنی ذات کو بنایا گیا۔ یہ پالیسی مودی کے دور میں اس شدت کے ساتھ سامنے آئی کہ افغان سکریپ کو پاکستان کے ذریعے بھارتی پنجاب کی سٹیل مل تک پہنچانے کا منصوبہ بنا۔ سجن جندال وزیراعظم نریندر مودی کو افغانستان کے دورے کے بعد سیدھا پاکستان لے آیا۔ بنا ویزہ۔ اس دوران پارٹی میں موجود دائیں بازو کے ووٹر مایوس ہوتے گئے۔ بھٹو مخالف ووٹر کو بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد بھٹو اور اینٹی بھٹو تقسیم میں دلچسپی نہ رہی۔ ملک میں سیاست دانوں اور افسر شاہی کی لوٹ مار کے خلاف رائے عامہ مستحکم ہونے لگی‘ سرکاری نوکریوں پر بین کہہ کر دھتکارے اور سیاسی صف بندی سے آزاد نئی نسل نے آئی ٹی اور مارکیٹنگ کے شعبے میں معاشی آزادی کے ساتھ خوشحالی حاصل کی‘ لوگ بیرون ملک جا کر کامیاب ہوتے گئے۔ ملک میں چھوٹے چھوٹے کام کر کے اپنی حالت تبدیل کی۔ خواتین زکوٰۃ کے چند سو پر گزارہ کرنے کی بجائے محنت مزدوری کو ترجیح دینے لگیں۔ نچلے اور متوسط طبقے نے موروثی سیاست کو مسترد کرنا شروع کردیا۔ تحریک انصاف نے ان نئے رجحانات کو نعرے بنا کر مسلم لیگ ن کے اجزائے ترکیبی کو اپنا حصہ بنالیا‘ اب اندر سے کھوکھلی مسلم لیگ ہے جو تقسیم کے یقینی انجام سے دوچار ہونے کو ہے۔ اس کے اراکین پارلیمنٹ ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں مشورہ کر رہے ہیں کہ کون م لیگ اور کون ش لیگ میں جا رہا ہے۔