میں سوچ رہا ہوں۔حضرت محمدﷺ کے عاشق تو بہت تگڑے ہیں۔ مگر مسلمان ملکوں کے حکمران بہت کمزور ہیں ۔دنیا میں گستاخانہ خاکوں کا معاملہ ہو یاکشمیریوں کی حق خود اختیاری کی جدوجہد یافلسطین میں اسرائیل کی بربریت ہو، وہ ہر مرحلے پر بے بسی کی تصویر نظر آ رہے ہیں۔کیا یہ مذاہب کی جنگ ہے؟ کیا مسلمان پوری دنیا میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور عقیدوں کی پیروی کرنے والوں کے نشانے پر ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ زندگی کے تمام سنہری اصولوں پر مشتمل دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس دین فطرت کا وعدہ انسانوں سے کیا تھا اس کی تکمیل حضرت محمدؐ پر کی۔ محمدﷺکے بعد اب رہتی دنیا تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ محمدؐ سب نبیوں کے سردار ہیں۔ تاجدار دوجہاں ہیں۔ چودہ صدیوں سے ان کے پیغام کو روکنے کی کوشش ہو رہی ہے مگر یہ پیغام پھیلتا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ میں ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب سو عظیم شخصیات کے لکھنے میں 28سال لگا دیے جب یہ کتاب مکمل ہوئی تو اس کی تقریب رونمائی لندن میں منعقد کی گئی۔ تقریب کے وقت ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مائیکل ہارٹ اظہار خیال کے لئے اسٹیج پر آیا تو شور میں کان میں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن مائیکل نے اپنی بات کہنی شروع کی’’ایک انسان چھوٹی سی بستی مکہ میں کھڑے ہو کر لوگوں سے کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسولؐ ہوں۔ اللہ ایک ہے اور میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہارے اخلاق و عادات کو درست کر سکوں۔ ان کی اس بات پر پہلے صرف چار لوگ ایمان لائے اس میں ان کی بیوی ایک دوست اور دو بچے شامل تھے لیکن آج جب ہم یہاں کھڑے ہیں اس بات کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں۔زمانے کی رفتار کے ساتھ ان کے پیروکاروں کی تعداد بڑھ کر ڈیڑھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے ہر آنے والے دن میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چودہ سو سال بعد جھوٹ کا زندہ ہنا محال ہے اور کسی کے لئے بھی یہ ممکن نہیں کہ ڈیڑھ ارب لوگوں کو دھوکا دے سکے اور پھر ایک بات کہ آج بھی آپ کے لاکھوں پیرو کار آپ کے لئے جان دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں کیا کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اللہ اور اس کے نبی کے لئے جان دینے کے لئے آمادہ ہو۔ بلا شبہ تاریخ کی سب سے عظیم شخصیت مسلمانوں کے نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔مائیکل ہارٹ نے سب سے عظیم شخصیت کا اعلان کیا تو پورے ہال میں خاموشی چھا گئی۔ایک ہیبت کا سماں تھا۔ آپ آزادی اور خود مختاری کے لئے جدوجہد کرنے والی مسلم اقوام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو ایسے مناظر اور واقعات بکھرے نظر آئیں گے جو آپ کو حیران کر دیں گے۔1947ء میں تقسیم ہند کے وقت آگ کے جن دریائوں کو پار کر کے لاکھوں افراد نے آزاد وطن کے خوابوں کی تعبیر پانے کی کوشش کی ان کے راستے میں مصائب و الم، ظلم و ستم بے بسی اور مظلومیت کے قصے آج بھی ہمارے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں۔پھر زیادہ وقت نہیں گزرا۔چند دہائیوں قبل جب روس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو میں خود اپنے آپ سے سوال کرتا تھا کہ آسمان سے ٹوٹے تارے اور بنیاد سے اکھڑی قوموں کے لئے کوئی راستہ ہوتا ہے؟۔ 90ء کی دہائی میں مجھے پشاور کے قریب اس خیمہ بستی جانے کا اتفاق ہوا تو میرے سامنے مٹی کی کچی دیواروں ٹین کی چھتوں ٹاٹ کے دروازوں اور دور دور تک پھیلے بوسیدہ خیموں کا ایک وسیع شہر نظر آیا۔میں نے دیکھا وہاں غربت ،مسافرت ،مظلومیت اور بے مقصدیت کے ڈیرے لگے تھے کسی چہرے پر گزرے وقت کی خوشحالی حال کا عزم اور مستقبل کی روشنی نہیں تھی۔یہ لوگ افغان وار شروع ہوتے ہی یہاں آ گئے تھے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ دکھ کئی نسلوں پر محیط ہے۔ ایک نسل اپنے وطن سے چلی تو راستے میں جگہ جگہ اپنی ھڈیاں دفن کرتی آئی۔ دوسری نسل نے یہاں خیمے گاڑے اور واپسی کا راستہ کھلنے کا انتظار کرنے لگی۔ تیسری نسل پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے پورے پاکستان میں پھیل گئی چوتھی نسل وہ جس نے یہاں آنکھ کھولی تو اس کا کوئی وطن نہیں تھا۔یہ نسل گزشتہ تیس 35سالوں سے مسلسل پیدا ہو رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حالات نارمل ہونے کے بعد یہ سب واپس اپنے وطن کیوں نہیں جاتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس بستی سے ایک بار موت گزر جائے وہاں زندگی کو نمو پانے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں۔یہ لوگ آج بھی گری ہوئی دیواروں ،بنجر زمینوں اور اجڑے باغوں کی آباد کاری کے لئے اپنی بچی کھچی نسل کو دائو پر لگانے کے لئے تیار نہیں۔آج جب میں کشمیر اور فلسطین کی صورت حال پر نظر ڈالتا ہوں کہ جا بجا ایسے مناظر کہ آنکھیں روشنی سے خالی ہو گئی ہیں۔ دھڑکنیں مردہ وجود میں جذب ہو گئی ہیں۔ اعضاء سے حرکت اڑ گئی ہے اور نسیں قطرہ خون سے خالی ہو گئی ہیں لیکن ان مجاہدین کی بہادری پر دنیا حیران ہیں کہ کیسے لوگ ہیں جو چھ روز تک بغیر کھائے لڑنے پر آمادہ ہیں۔یہ کیسے لوگ ہیں جو کلمہ شہادت کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنا سینہ گولیوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔یہ کیسے لوگ ہیں جو بموں اور میزائلوں کی دھمک اور ہلاکت خیزی پر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ٭٭٭٭