مڈل ایسٹ میں ایک اور طرح کی کولڈ وار جاری ہے جس میں ایران اور سعودیہ ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ دنیاوی سیاست کی بساط … ہمیشہ کی طرح پاور پلے، قوت اور مفادات سے آراستہ ہے۔ اس پر مہرے چلنے والے ایکٹرز (مسلم ممالک) اپنے مہرے کس طرح آگے بڑھاتے ہیں۔ کس طرح سٹیٹ کرافٹ کو ہینڈل کرتے ہیں۔ کیا عالمی بساط پر … خطے کی سیاست میں… داخلی جوڑ توڑ میں یہ سب حکمران جو کلمہ گو بھی ہیں اور بظاہر مسلمان بھی۔ کس طرح آگے بڑھتے ہیں؟ ان کے عمل کی بنیاد کیا دین اور خوفِ خدا ہوتا ہے؟ کیا یہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع میں مصروف ہوتے ہیں۔ اسلامی سال کی ابتدا ہے۔ مسلمانوں نے، مسلمان حکمرانوں نے اسی نبی آخرالزماں کے نواسے کو شہید کردیا جس کا وہ کلمہ بھی پڑھتے تھے اور اس کے دین کے داعی بھی تھے۔ بنو اُمیہ … بنو عباس اور پھر خلافت عثمانیہ بھی … اپنے دامن میں ایسے بہت سے واقعات رکھتے ہیں جن کا کسی بھی صورت دین دفاع نہیں کرسکتا۔ شہادت کے اردگرد کی تاریخ … اسلامی تاریخ… مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے فکری بگاڑ سے، نظریاتی کشت و خون سے، سیاسی خلیجوں سے۔ کیا مسلمان حکمرانوں … مسلمان معاشروں… کیا مسلمان ملکوں کو بنام دین ایک لڑی میں پرویا جاسکتا ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ سب کی اپنی اپنی سمت، اپنا اپنا نظریہ دین، اور اپنی اپنی تاریخ اسلام ہے۔ اس تاریخ کو دیکھنے کے زاویے بھی ایک دوسرے سے ایک سو اسّی ڈگری پر ہیں۔ ان میں درست … یا درست فکر کے قریب تر زاویہ کون سا ہے؟ تاریخ کے اوراق پلٹو، مگر یہاں ہر دانشور کے تاریخی زاویے بھی یکساں نہیں ہیں۔ مسلمان دانشور بھی اور غیرمسلم تاریخ دان بھی۔ غیرمسلم دانشور، محقق اور مورخ مسلمانوں کو کس طرح جانچتے ہیں؟ مسلمان امت کے احوال کا جائزہ کیسے لیتے ہیں؟ ہمارے عروج کے کیا اسباب بیان کرتے ہیں؟ ہمارے زوال کی کس طرح پڑتال کرتے ہیں؟ کیرن آرم سٹرانگ سے حسین نصر تک اور مارٹن لنگز سے برنارڈ لیوس تک اور پھر Lesely Hazlit تک۔ وہ مسلمانوں کی تواریخ کو کھنگالتے ہیں۔ابن تیمیہ سے طبری تک اور پھر ان ہی حوالوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کی تاریخ کا گراف بناتے ہیں۔ عروج کا بھی اور زوال کا بھی۔ اس عروج اور زوال کے سینکڑوں پہلو ہیں… بے شمار جہتیں ہیں۔ ہمارے ملک کا مقامی دانشور بھی اپنے اپنے Lenses سے اس صورتحال کا جائزہ لیتا ہے۔ کچھ کے نزدیک سائنس اور ریسرچ ٹیکنالوجی سے دوری نے مسلمانوں کو زوال سے دوچار کردیا۔ اس کے لیے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک خاص وقت کے بعد مغرب صنعتی انقلاب کی وجہ سے بہت آگے نکل گیا۔ اس نے دنیائے ایجادات میں تہلکہ مچادیا۔ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ وقت نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آج مغرب اور امریکہ والے ٹیکنالوجی اور سائنس کے خدا ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو ان کے سامنے سرنڈر کردینا چاہیے۔ یا یہ کہ وہ جو قوت اور علم میں پیچھے رہ جائے زوال اس کا مقدر ہے۔ یہ بات اپنے اندر ایک طاقتور دلیل کی حامل ہے۔ ان کے مطابق قرآن نے وعدہ کیا ہے مسلمانوں کے غالب آنے کا ، مگر یہ مشروط ہے اس بات سے کہ اگر تم مومن ہو۔ پھر ان کی دلیل آگے بڑھتی ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو اپنے عصر سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ آج کا مسلمان اپنی نالائقی اور بے علمی کی وجہ سے مغرب اور ترقی یافتہ اقوام سے سینکڑوں سال پیچھے رہ گیا ہے اس لیے زوال اس کا لازمی مقدر ہے۔ اس صورتحال پر مقامی اور قومی دانشوروں کا ایک اور قبیلہ ہے۔ یہ لبرل دانشور کے تجزیے سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا۔ ان کے مطابق مسلمانوں کا زوال ان کی اپنی وجہ سے نہیں بلکہ اغیار کی سازشوں کی وجہ سے ہے۔ یہ زوال وقتی ہے۔ ماضی کی نشاۃِ ثانیہ … مستقبل میںبانہیں پھیلائے مسلمانوں کی منتظر ہے۔ وہ طالبان کو گلوریفائی کرتے ہیں۔ امریکہ کو شیطان پینٹ کرتے ہیں۔ غزوئہ ہند کی پیشگوئی کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی فتح کو سامنے دیکھتے ہیں۔ مسلمان امت کے زوال کو وہ ایک وقتی وقفہ قرار دیتے ہیں۔ کافروں کے مغلوب ہونے اور مسلمانوں کے غالب آنے کی بشارت دیتے ہیں۔ وہ عالمی سپرپاورز کو دجال سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مختلف اوقات میں مختلف ہستیوں نے جو جو پیشگوئیاں کی ہیں، ان کو ملا کر وہ ربط اور تسلسل سے ایک بیانیہ دیتے ہیں۔ حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کا بیانیہ خاصا پاپولر بھی ہے۔ ان دونوں Thesis کے علاوہ ایک اور ڈاکٹرائن بھی ہے۔ اسلام اس کائنات کا بہترین دین ہے۔ ہمارے نبی امام الانبیاء ہیں۔ پھر انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے اتنی گراوٹ کا سبب؟ زمان اور مکان … تمام دنیاوی اسباب ہماری مخالفت پر کیوں کمربستہ ہیں؟ ہم غالب کیوں نہیں؟ مغلوب کیوں ہیں؟ اس راستے کے مطابق سب مسلمان فرعون کی زندگی گزار کر موسیٰؑ کی سی عاقبت کے متلاشی ہیں۔ اگر ہم کتاب اور نبیؐ کے پیغام کو پوری طرح سمجھ کر سرتا پا اس میں داخل ہوجائیں، اسے اپنی ذات کا حصہ بنالیں، اپنی اجتماعی زندگی میں جاری و ساری کردیں۔اپنے صراطِ کو مستقیم کرلیں۔ مگر یہاں ایمان کچھ اور ہے، یقین کچھ اور۔ ظاہر کہیں اور … باطن کہیں اور۔ راستہ کچھ اور منزل بالکل ہی کچھ اور۔ اس نظریے کے مطابق بہترین دین … بہترین نبیؐ ، مگر فالو ہم اسی اپروچ کو کرتے ہیں جس میں کسی دین اور ایقان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زندگی اور عمل تضاد دَر تضاد۔ Paradoxes ہی Paradoxes۔ تو پھر نتیجہ حسب مطابق تو نہیں نکلے گا۔ ضرب تقسیم ہی غلط ہے تو پھر درست جواب کی آرزو بھی عبث ہے۔ نہ اخلاص، نہ یقین، نہ اعتقاد، نہ اعتماد۔ اگر اعتبار ہے تو دنیاوی جوڑ توڑ پر … جبکہ کائنات کا رب اپنی کتاب میں فرمارہا ہے کہ تم مجھ پر توکل کرو … اپنے صراط کو مستقیم رکھو… مگر آج کا مسلمان؟ توکل زیرو۔ اس امت کے عمل اور نیت کو قرآن کی رو اور نبیؐ آخرالزماں کے اسوئہ سے جوڑو … جواب سامنے ہے۔ اس فلسفے کے مطابق مسئلہ صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی جیت اور فتح کا نہیں۔ معاملہ تصور دین کا ہے۔ سیرت کا اتباع ہے۔ نیت کا اخلاص ہے۔ فکر کی سمت ہے، جو ناپید اور نایاب ہے۔ نجات اس ڈسپلن، کیمسٹری اور فارمولے میں ہے جو خالق نے وضع کیا ہے۔ ترجیح درست کرو، نتیجہ درست آئے گا۔ مگر شاید ’’عصر‘‘ یوں ہی سفر کرتا رہے گااور بات وہیں پہنچے گی … جدھر جارہی ہے!!! کیونکہ بلاشبہ انسان خسارے میں ہے۔(ختم شد)