میں نے پروگرام کا آغاز کیا اور پوچھا‘ آج آپ سب اداس کیوں ہیں‘ پھر وضاحت کی سبھی کے چہروں پر ایک سی کیفیت ہے۔ گہری اور شدید اداسی کی۔ سب نے تصدیق کی۔ یہ وہ دن تھا جب حکومت پاکستان کی طرف سے مشیر خزانہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیاہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو انہونی ہو۔ کافی عرصے سے اس گھڑی کا انتظار تھا۔ سب جانتے تھے یہ ہونے والا ہے۔ اچانک مجھے وہ دن یاد آیا جب میں نے ریڈیو پاکستان سے سقوط ڈھاکہ کی خبر سنی تھی۔ کئی دن تک ایسی ہی اداسی کی کیفیت رہی تھی۔ ایسا کیوں ہے۔ میں سوچنے لگا۔ شاید کسی نے اسے اقتصادی سرنڈر کا نام دیا ہے۔ اس پر ذہن ادھر گیا ہو ۔معاہدے تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اب کی بار کیا قیامت آئی ہے۔ ذہن کا کرب ناک سفر جاری رہا اور میں سوچتا رہا۔ یہ تو کوئی انہونی بات نہیں۔ میں تو ایک سال سے اس کی خبر دے رہا تھا مگر سانحہ مشرقی پاکستان تو سچ مچ ہمارے لئے انہونی گھڑی تھی۔ کوئی توقع ہی نہ تھی کہ بنگال کے محب وطن عوام ہم سے الگ ہو سکتے ہیں اور ہماری ناقابل شکست فوج کبھی ہتھیار ڈال سکتی ہے۔ دو دن پہلے تو ہمارے کمانڈر سینہ پھیلا کر غیر ملکی میڈیا کو بتا رہے تھے کہ بھارتی ٹینک مرے سینے سے گزر کر ڈھاکہ میں داخل ہوں گے ہم مطمئن تھے اور کسی قسم کی خبر پر کان نہیں دھر رہے تھے۔ یہ میں کدھر نکل گیا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس وقت بالکل ویسی ہی کیفیت ہے جیسے میں نے ہتھیار ڈال دیئے ہوں۔ میں نے بڑی مزاحمت کی ہے۔ میں سوچنے لگا نہیں نہیں میں اس حکومت پر الزام نہیں دھر رہا۔ میں تو مسلسل کہہ رہا ہوں کہ جب اس ملک میں سیاسی بحران پیدا کیا گیا‘2016ء کے آخر میں ‘تو اس عملی کام کا آغاز ہو گیا تھا ہم بہادر قوم ہیں‘ مگر دشمن کی چالوں سے مار کھا جاتے ہیں۔ میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں۔ اگر میں محمد غوری ہوتا تو اپنے سرداروں کی تھوتھینوںپر تو بڑے چڑھا دیتا دیتا کہ جب تک میدان مار نہیں لو گے‘ تمہاری یہی سزا ہے۔ غضب خدا کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ مرا ماتھا تو اسی دن ٹھنکا تھا جب دفتر خارجہ کے بعض افراد سے ایک جگہ ملاقات ہوئی۔ سب سی پیک کی خرابیاں چن چن کر گنا رہے تھے۔ انہی دنوں نام نہاد ماہرین معاشیات کے جس جتھے کی آمد آمد کی خبریں تھیں۔ وہ یقین دلانے کے لئے کافی تھا کہ عالمی اقتصادی دہشت گرد ہمارے معاملات سنبھالنے والے ہیں۔ مجھے یقین ہو چکا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ بہت ہاتھ پائوں مارے بہت لکھا بہت بولا مگر کسی نے اس دھرتی کو اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا تھا۔ اپنی بے بسی پر رونا آیا۔ صاف صاف کہا گیا کہ یہ لوگ ہمارے سی پیک کے پروگرام پر چھاپا مارنا چاہتے ہیں۔ اس پر وہ کوئی بات خفیہ بھی نہیں رکھ رہے۔ مودی بھی یہی کہہ رہا ہے‘ ٹرمپ نے آواز میں آوازملا دی ہے‘ ہمارے اندر کے رزاق دائود بھی بول پڑے ہیں۔ یہ تو جو ہونا تھا وہ ہو گیاہے۔ ڈر آگے کا ہے۔ ابھی بہت کچھ خطرے میں ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ بہت آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اپنے ایٹمی پروگرام کو سنبھالو۔ یہ آواز صرف جنرل حمید گل‘ حکیم سعید یا ڈاکٹر اسرار کی نہیں ہے اور بہتوں نے وارننگ دی ہے۔ ہماری سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ مجھے یونہی مشرقی پاکستان یاد نہیں آ رہا۔ ایک بات پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ دوبارہ بتائے دیتا ہوں کہ کسی نے درست کہا ہے کہ خطے کی جیو سٹرایٹجک صورت حال بدل چکی ہے۔ اس کا خلاصہ صرف ایک فقرے میں بیان کئے دیتا ہوں۔ اب دشمن کے مگ21‘ایف 16سے نہیں ایف 17تھنڈر طیاروں سے گرائے جائیں گے اگر کسی کو اس بدلتی صورت حال کا احساس نہیں ہے تو کم از کم وہ شورو غوغا ہی سن لے جو اس خبر پر پوری دنیا میں مچا ہوا ہے۔ تو کیا اب اپنی حفاظت کے لئے امریکہ پر انحصار کرنا ضروری نہیں ‘ بلکہ دانشمندانہ نہیں۔ میں کیوںبار بار بار پوچھتا ہوں یہ اتنا اہم کیوں ہو گیا کہ کس طیارے سے گرایا گیا ہے۔ کیوں بار بار پوچھا جاتا ہے اور اس خیال ہی سے کیوں کپکپی طاری ہو جاتی ہے کہ چین کے اوپر ہی سرخ ستارہ کہیں چمک رہا۔ ہمارا ستارہ ہلال بھی ضیا بار ہے۔ ہم نے اس بدلتی کیفیت کا ادراک نہ کیا تو مارے جائیں گے۔ ادھر مشرق وسطیٰ میں نیا محاذ کھلنے جا رہا ہے۔ افغانستان سے بستر گول ہو رہا ہے تو مشرق وسطیٰ کے معرکے کو مزید وسعت مل رہی ہے۔ ہمیں کیوں بار بار مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم ایران سے چھیڑ چھاڑ کریں یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ اب ہمیں بھارت کے بعد افغان سرحد پر ہی نہیں‘ ایران کی سرحد پر بھی خاردار باڑ لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ جو ہماری ابتدائی چاپلوسی ہوئی۔ یہ صرف معاشی ہٹ مین ہی نہ تھا۔ بلکہ جنگ جوئوںکی یلغاریں بھی تھیں جو ہمیں گھیرنا چاہتی تھیں۔ ہم جتنا گھر چکے ہیں‘ یہ کافی نہیں اس لئے مزید مطالبے ہوں گے اب ڈومور ادھر سے ہو گا۔ کیا ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف اقتصادی محاذ پر ہم بابکل بے دست وپا کئے جا رہے ہیں۔ بھائی پہلے دور کتنے برے بھی تھے‘ کم ازکم ملک ترقی تو کر رہا تھا۔ کاروبار چل تو رہا تھا۔غریب کو روٹی تو مل رہی تھی۔ چھوٹی موٹی نوکریاں تو دستیاب تھیں۔ گیس اور بجلی اتنی مہنگی نہ تھی۔ یہ کون سی معیشت کی اصلاح ہو رہی ہے کہ اس کے نتیجے میں سیاسی بحران پیدا کئے جا رہے ہیں۔ یہ تک کہا جا رہا ہے کہ وفاق دیوالیہ ہو گیا ہے۔ ملک کے اندر اور سرحدوں پر دبائو بڑھا دیا گیا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ہماری سلامتی کے اخراجات بڑھائے جا رہے ہیں۔ یہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے اہل نظر نے اس کا ہو بہو نقشہ بہت پہلے ہی کھینچ کر رکھ دیا تھا۔ حضور اس میں ذمہ داری کسی ایک کی نہیں ہے۔ سب سیاستدان ‘ سارا میڈیا‘ وہ سب ادارے جنہیں ہم مقتدر و مقدس کہتے ہیں۔ اور جن کے بارے میں بات کرنا قابل تعزیز جرم ہے۔ یہ سب اور ہم سب اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم سی پیک سے دور نہیں ہوئے‘ ایک جیو سٹریٹجک صورت حال سے نکل رہے ہیں اور جہاں جا رہے ہیں۔ وہ ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔ اول دن سے ہم نے ان کی دوستی کی قیمت چکائی ہے۔ ٹھیک ہے ہمیں فائدہ بھی ہوا ہو گا۔ میں اس پر قطعاً یہ نہیں کہتا کہ وہاں سے نہ ملتا تو کہیں اور سے مل جاتا۔ تاہم یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری سمت بڑی غلط ہو رہی ہے کتنے بدقسمت ہیں ہم کہ تاریخ کے درست رخ پر کھڑے کھڑے ہم الٹ رخ پر چل پڑے ہیں۔ اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو گی فوری خوف تو یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں عام آدمی کا کیا بنے گا۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر بڑا خطرہ یہ ہے کہ ہماری سلامتی کا کیا ہو گا۔ ہمیں کیوں یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ ابھی تو نہیں‘ مگر ایک وقت آئے گا جب آپ کو ایف17تھنڈر اور ایف 16میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں قومی خود مختاری اور مسلسل غلامی میں سے کسی ایک کو چننا پڑے گا۔ اور وہ بھی مشروط غلامی‘ ہزاروں زنجیروں میں جکڑی ہوئی غلامی یہ چھوٹی بحث نہیں ہے کہ امریکہ سے خرید کئے گئے ہتھیار استعمال کرنے میں ہم کتنے آزاد ہیں۔65میں تو تھے نہیں۔ اب بھی شکایت یہ تھی۔ انہیں وضاحت کرنا پڑی کہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ وگرنہ سب ممکنہ گاہک بھاگ جاتے اور یہ کہ ہم افغانستان سے نکل کر ایران سے نہیں الجھنا چاہتے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ یہ ایک بار پھر ایران سے پائپ لائن کی بحث کیوں تازہ ہوئی ہے۔ یہ جو میں اشارے کرتا جاتا ہوں۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ ایک کنگال ملک ایٹمی طاقت نہیں رہ سکتا۔ کنگال تو خیر بڑی بات ہے۔ سوویت یونین جیسی اچھی خاصی معیشت اپنا بوجھ نہ سہار سکی۔ صرف افغانستان سے نہ بھاگی‘ اپنا انجر پنجر تباہ کر بیٹھی۔ ہمیں کہیں نہ کہیں قدم روکنا پڑیں گے۔ مگر کیا ہم میں اس کی صلاحیت ہے۔ ہماری قیادت میں اتنی سوجھ بوجھ ہے۔ بس ایک یہی سوال تنگ کرتا ہے۔