ابتلاء کا دور ہے ۔انسانی آبادیاں پریشان اور کوچہ وبازار ویران--- ’’احباب ‘‘ہیں کہ ہاتھوں سے نکلتے جارہے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتہ میں صاحبزادہ پیر کبیر علی شاہؒ ، صاحبزادہ سیّد فاروق القادریؒ ،مولانا عبدالتواب صدیقی ؒ،صاحبزاد محمد تاجور نعیمیؒ، خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں رجوع اللہ ،توبہ اور استغفار کی بجائے ہم ہیں کہ ’’انتہا پسندانہ رویّوں‘‘اور تشدّد آمیز لہجوں کی ترویج اورابلاغ میں پورے زور سے سرگرم ِ عمل ہیں۔ قومی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر محراب ومنبر اور مدرسہ وخانقاہ نے یقینا یہ کریڈٹ سمیٹا کہ کٹھن اورمشکل حالات میں دینی لیڈر شپ کے اصرار اور مشاورت پر مساجد اور مزارات کھولے گئے اور پوری قوم نے اس امر کا اعتراف کیا کہ درباروں اور مسجدوں میں گورنمنٹ کے طے شدہ ایس او پیز پر پوری طرح عملد رآمد ہوا ، جو کہ اب بھی جاری ہے ۔ ایسے میں ، اس’’وبا زدہ‘‘ ماحول میں،جبکہ شہری فکری مندی اور پریشانی میں مبتلا تھے ،عامۃُ الناس کی دلجوئی اور ذہنی وقلبی آسودگی کا کچھ سامان ہوتا ، نہ کہ ہم نے ’’ مسئلہ فدک‘‘جیسے نازک اورحساس موضوع اورپھر اس میں سیّدۃُ النساء العلمین ، بِضْعَۃُ الرسول حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرہ سلام اللہ علیہا جیسی عفت وعصمت مآب ہستی کے بارے میں ایسا پیرایہ اختیار کیا ،جس نے پوری اُمتِ مسلمہ کے دلوں کو دُکھی کردیا ۔ ’’فقیہ شہر‘‘،کے مطا بق ، انہوں نے اپنے دلائل وبراہین کو امام المسلمین ،رئیس المجدّدین، مامور من الرسو ل حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی ؒ کی کتاب ’’تصفیہ مابین سُنیّ وشیعہ ‘‘کی ایک عبارت پر استوار کیا ہے ، جبکہ درگارِ عالیہ گولڑہ شریف کی طرف سے اس کی باقاعدہ تردید جاری کی گئی ہے۔ حضرت پیرمہر علی شاہ ؒ کے اصل موقف کی صراحت اوراس کے ابلاغ کا فریضہ ،علامہ ڈاکٹر جی اے حق چشتی نے سرانجام دیا ، جبکہ علامہ شیخ عبدالحمید او رمولانا سمیع الحق بھی اس موقع پر ان کے ہمراہ تھے ۔ صاحبزادہ ڈاکٹر جی اے حق چشتی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بطورِ ریسرچ سکالر ،طویل عرصہ تک خدمات سرانجام دیتے رہے ،موصوف برصغیر کی معروف علمی شخصیت علامہ غلام محمد محدّثِ گھوٹوی ، جوکہ جامعہ عباسیہ بہاولپور کے ’’بانی شیخ الجامعہ‘‘ اور حضرتِ اعلیٰ گولڑوی ؒ کے منظورِ نظر تھے ،کے پوتے ،اورقاسم علوم مہریہ پیر سیّد غلام معین الحق گیلانی سجادہ نشین گولڑہ شریف کے ترجمان خاص کے طور پر معروف ہیں۔گولڑہ شریف سے موصولہ تحریر نذ رِ قارئین ہے۔ ’’سوشل میڈیا کے ذریعے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کا ایک ویڈیو کلپ ہم تک پہنچا ہے جس میں اس نے مسئلہ فدک پر گفتگو کرتے ہوئے امام المسلمین رئیس المجدّدین ، فاتح قادیانیت ،مامور من الرسول سیّدنا پیر مہر علی شاہ قد س سرّہ العزیز کی تصنیف لطیف’’تصفیہ مابین سُنی وشیعہ‘‘کا ایک اقتباس پڑھنے کے بعد اپنی طرف سے کچھ جملوں کا اضافہ کرکے شعوری طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ مؤقف حضرت قبلہ عالم سیّدنا پیر مہرعلی شاہؒ کا ہے۔ ہم اس کی اس غلط بیانی کی مذمت کرتے ہیں ۔ چونکہ اندرون وبیرون ملک سے احباب اس حوالے سے استفسار کررہے ہیں لہٰذا درگاہِ عالیہ گولڑہ شریف سے اس کی وضاحت ضروری سمجھی گئی کہ موصوف کے یہ جملے ہرگز ہرگز حضور قبلہ عالمؒ کی نہ تحریر ہیں،نہ موقف نہ عقیدہ۔یہ جلالی صاحب کا اپنا ذاتی موقف اوربیان ہے جو موجب ایذاء اہلِ ایمان ہے۔ مسئلہ فدک پر حضرت قبلہ عالمؒ کا مکمل بیان ’’تصفیہ مابین سُنی و شیعہ‘‘ اور ملفوظات طیبات میں موجود ہے ۔آیۃ تطہیر ( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ) کی تفسیر میں آپؒ ارشاد فرماتے ہیںکہ اہلِ کساء یعنی سیّدہ کائنات ،حضرت شیرِ خدا ،حسنین کریمین علیہم السلام جداگانہ و ممتاز انہ تطہیر کے مالک ہیں۔ملفوظ نمبر150میںفرماتے ہیں کہ فدک پرآنحضرت ﷺ کا تصرّف مالکانہ تھا یا وقف پر واقف کے تصرّف کی مثل یابیت المال پرحاکم کے تصرّف کی مثل۔ یہ امر صحابہؓ پر ظاہر نہیں ہوا۔ لہٰذا بہ متقضائے مصلحت اِسی امر کو انسب خیال کیا گیا کہ فدک کی صورت اِسی طرح رہے جیسا کہ عہدِ نبویؑ میں تھی ۔ آگے آپؒ فرماتے ہیں ۔ واجب العصمۃ تو صرف ملائکہ اورانبیاء کرامؑ ہیںنہ کہ صحابہ کرام ؓ ، ان کے اس باہمی اختلاف کافیصلہ کرنے کااختیار ہمیں تو نہیں دیا گیا اورنہ ہی ہم سے یہ سوال ہوگا کہ تم نے فیصلہ کیوں نہیں کیا ؟ اور نہ ہم اس وقت اُس موقعہ پر حاضر تھے اورنہ ہی ان کے تنازعہ کے درمیان بولنا ہمیںزیب دیتا ہے۔ ہم بار گاہِ ربّ العزّت سے حضرت قبلہ عالمؒ کی نسبت کی صدقہ سیّدۃ نساء العالمین بضعۃ الرسولﷺکی غلامی اور ادب واحترام کا سوال کرتے ہیں اورجلالی صاحب کا معاملہ سپردِ ربّ ذوالجلال کرتے ہیں ۔‘‘ حضرت پیر مہر علی شاہ قدس سُرّہ اپنے عہد کے جلیل القدر اور عظیم المرتبت روحانی ، دینی اور علمی ہستی تھے ، علامہ اقبال کو برطانیہ کی معروف دانشگاہ کیمبرج یونیورسٹی میں زمان ومکاں (Time and Space) کے متعلق ،حضرت شیخ اکبر ؒ کے نظریہ پر لیکچر دینا تھا تو انہیں شیخ اکبر کی کتاب ’’فتوحاتِ مکیہ ‘‘کے ایک باب پر راہنمائی درکار ہوئی،جس کے لیے انہوں نے 8اگست1933ء کو حضرتِ اعلیٰ گولڑوی کی خدمت میں ایک عریضہ ارسال کرتے ہوئے استدعا کی اس وقت ہندوستان بھر میں کوئی اور دروازہ نہیں ،جو پیشِ نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹا یا جاسکے ۔ ’’تصفیہ مابین سُنی وشیعہ‘‘حضرتِ اعلیٰ گولڑوی کی دیگر گراں قدر تصنیفات میں سے آخری تصنیف ہے ،جو آپؒ نے سُنی شیعہ مباحثات کے اُس دور میں اس لیے تصنیف فرمائی ،تاکہ ایسی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی بیخ کنی ہوسکے ، جن میں ’’تعصب زیادہ اور انصاف کم ‘‘ ہے ۔آپ نے اس کے ابتدائیہ میں ’’وجہ تالیف‘‘تحریر فرماتے ہوئے لکھاہے کہ "تخالف مذہبی مابین سُنی وشیعہ کوئی نیا اختلاف نہیں ہے جسے رفع کرنے کے لیے طالبان حق موجُودہ زمانہ کے علماء سے التجا کریں ۔اس سے قبل سلف صالحین علیہم الرضوان حسب تدابیر الٰہیہ وقتاً فوقتاً اہل بیت کرام سے محبت رکھنے کے وجوب اور خلافتِ خلفائے اربعہ کی حقانیت کے اہم موضوع پر نہایت شائستہ انداز میں اظہار خیال فرماتے چلے آئے ہیں ۔ البتہ حال ہی میں اس تخالف میں ایک نئے رُجحان کا اضافہ ہوا ہے اور یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ اہل سُنت والجماعت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اہل بیت کرام کے خلاف بُغض اوربنی اُمیہّ کے ساتھ محبت رکھے ۔ حالانکہ اہل سُنت کبھی بھی اس شقاوت میں ملوّث نہیں ہوئے ،اوراُن کے عقائد میں رسول پاک ﷺ کے خاندان سے دوستی ومؤدّت مدارِ ایمان اَور فرض مانی گئی ہے ۔اس نئے رُجحان کی وجہ یہ معلوم ہوئی ہے کہ ہمارے علمائے کرام نے بمقابلۂ اہل تشیع اپنے مواعظ ونصائح کی مجالس میں صرف دفع ملا عن و مطاعن کی طرف ہی رُخ کیا ، اوراہل بیت علیہم السلام کے فضائل ومناقب بیان کرنے کی طرف کم توجہ فرمائی ۔" قارئین جانتے ہیں،"فدک"خیبر کے علاقہ میں یہودیوں کا ایک گائوں تھا ،07ھ میں مسلمانوں نے ،اس گائوں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی ، انہوں نے دعوت قبول نہ کی ، مزید برآں ، اُن میں جنگ لڑنے کی طاقت بھی نہ تھی ، لہٰذا فدک کی نصف زمیں آنحضرتﷺ کو پیش کرکے صلح کر لی ۔ ایسی چیز ،جو بغیر جنگ وقتال کے ملے، اُ س کو "فَی"کہتے ہیں ۔ اگر جنگ سے حاصل ہوتو اُسے غنیمت کہاجاتا ہے ، آنحضرت ﷺ فدک کی آمدنی ، اہل بیت کے نفقہ میں صَرف فرماتے ، اگر کچھ بچ جاتا تو فقرأ اورمساکین کو عطا فرما دیتے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی اپنے عہدِ خلافت میں اُسی طرح کیا ،جیسا انہوں نے آنحضرت سے سُنا ،اور انہیں کرتے دیکھا ۔