مسئلہ کشمیرکی حیثیت آئنسٹائن اور نیوٹن کے فلسفے کے جیسی ہے کہ ایک نقطہ تلاش کر لیاگیا تو سارا مسئلہ حل ہوجائے گا، لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اورظالم دنیاکے بڑے بڑے چوہدیوں اورمسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی نے اس مسئلے کی پرت اور اس کی تہہ اس قدر دبیز بنادی کہ اجمالی نظرڈالنے سے عام ذہن اس مسئلے کوپیچیدہ ترسمجھ رہاہے۔ کشمیرسے فلسطین اورافغانستان تک پوری ملت اسلامیہ کے ارد گرد اغیار کا ایک محاصرہ ہے، جواپنی پائیداری پرنازاں ہیں اوراسے ہمیشگی سمجھتے ہیں۔منشا و مرضی کے وہی مالک بنے بیٹھے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ انہی کے پاس پوری دنیاکے انسانوںکی خوشی و غمی کی کنجی ہے،ورلڈ بینک کے نام پر خزانے پرقبضہ ان کاہے اور وہی کل سرمایہ کے مالک ہیں۔وہ اپنے آپ کوعزت وذلت ،حکمرانی اورتابع فرمانی بانٹنے پر قادر سمجھتے ہیں۔مگر دنیا بھرمیں پائی جانے والی بے بسی ،بے کسی اوربے چینی کے ذمہ داروہی ہیں۔انہوں نے خودی کے خوگر مسلمانوں کے خلاف شدیدقسم کی اصطلاحیں گڑلیں ہیں اورانہی اصطلاحوں کے بہانے انہیں تختہ مشق بنارہے ہیں۔ مظلومین کے شب وروزپرلکھی جانے والی تحریر کا تعلق درد دل اور خون جگر سے ہوتا ہے۔ دل کے ارمان، نگاہوں کا شوق اور سینہ کی گرمی بیان کرنے کیلئے تمام ڈکشنریاں ناکام ہیں، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ زیرک قارئین تحریر کو لفظوں میں محرر کے جگرکی کیفیت کو تلاش کرتے ہیں،اس کی دلسوزی ڈھونڈتے ہیںاو روہ الفاظ اور تصویرکشی کے پیچھے موجود پیکرخاکی کے اس دل مضطرب کو بھی پڑھتے ہیں جو اس کا ماخذ، منبع اورمرکزہوتا ہے اس لئے میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اپنے دل کی عمیق گہرائی سے کشمیر میں رستا ہوا لہو، پھول پر گرتی ہوئی تلوار، چٹکتی کلی اور کھلتے گلاب کے مثلے ہوئے چہروں کوسامنے لائوں، درد وکراہ اورشکستگی میں چور قلم سے جب کشمیرمیں جاری بھارتی جبرکی تصویر کشی کی جاتی ہے،حساس نفوس کوتو اس کے اندر رنگ و روغن اور نوک پلک کی باریکیوں میں زخم رسیدہ اسلامیان کشمیرکی خوفناک چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔وہ میرے قلم کو محض روشنائی بکھیرنے والا اور لفاظی کرنے والا نہیں سمجھتے بلکہ کشمیرکی سرزمین سے پیوستہ ایک محررکے غمزدہ قلم کی روداد چمن ، صدائے غم اور داستان الم کوسمجھ لیتے ہیں۔ اگرچہ عام طورپر ایک محرر اکثرغم روزگارکا روناروتاہے لیکن یہاں معاملہ یکسر مختلف ہے یہاں تحاریرکی توسط سے ظالم اورمظلوم ، حق وباطل،انصاف وظلم ،جائزوناجائزکے مابین پائے جانے والے واضح فرق کو الم نشرح کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ زندگی خود ایک سبق ہے اورکتابیں انہیں اسباق کی تحریری شکلیں ہیں۔اس پس منظرمیں کشمیرپرمیری تحاریر ایک دلسوز داستان ہیں،جسے ان دلوں تک پہنچانامقصودومطلوب ہے جواسلامیان کشمیرکے پیچ وتاب کومحسوس نہیں کرپارہے۔ ممکن ہے کہ ان دلوں میں ملت اسلامیہ کشمیرسے متعلق د رداوراحساس پیداہوسکے۔میں سمجھتاہوں کہ کشمیرپرمیری تحاریر میری دولت ، میری پونجی اور میرا سرمایہ ہے۔میں سمجھتاہوں کہ میرے پاس وہ عظیم دولت ہے جو رب العالمین کے خاص فضل وکرم سے کسی کسی کے حظ میں آتی ہے اورمیں نے اپنے کمپیوٹرکے سافٹ ووئرمیںاسے بہت سنبھال رکھا، سنبھال کر رکھی ہوئی یہ دولت مجھے اتنا مسرور اور اتنا مطمئن رکھتی ہے کہ جس کاکوئی حساب نہیں۔ انہی کے سہارے میں اپنی ذات میں پورے وقار اور آسودگی کے ساتھ زندہ ہوں۔کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ میں نے ملت اسلامیہ کشمیرپرڈھائی جانے والی قیامتوں کوطشت ازبام کرکے ہندوکے دشمن اسلام مہیب چہرے کوبے نقاب کرنے کافریضہ انجام دیاہے۔میری کوشش رہی کہ ان تمام سانحات اوردلدوزواقعات کاتذکرہ ہوجائے جن کا1990ء سے آج تک اسلامیان کشمیرکو سامنارہا۔ملت اسلامیہ کشمیرکی زندگی کے ساتھ کئی سانحات ایسے بھی جڑے ہوئے ہیں کہ جب ان پر آسمان ٹوٹ پڑا، زمین شق ہوئی،ان کے چمن میں پھول اور کلیاں پامال ہوئیں۔ آخر کیسے لائیں انہیں کہ جنہیں ہم نے کھودیا، افق کے اس پارچلے گئے ۔ اسلامیان کشمیرکاسب لٹ گیا، مٹ گیا، خزاں نے سب برباد کردیا، باد صر صر نے سب اجاڑکررکھ دیا۔غموں کاایک سمندرہے ۔البتہ آنسوئوں کاسیل رواں اس وقت تھوڑی دیرکے لئے تھم جاتاہے کہ جب اس بات پرغورکیاجاتاکہ عظیم قربانیوں کی بدولت اگرملت اسلامیہ کشمیرکوہندوایسے دشمن دین سے آزادی مل جائے توپھریہ قربانیاں رائیگان نہیں۔ ہم اہل کشمیران بیش بہاقربانیوں کو سنجوئے ہوئے ہیں، سینہ سے لگا کر زندگی کا بہانہ بنائے ہوئے ہیں کہ یہی ثروت ہے، یہی خزانہ ہے، جو کچھ ہے بس یہی ہے، ہر چیز فنا ہوجائے گی، معدوم ہوجائے گی، ہمیشہ ہمیش ساتھ اگر ہونگی تویہی یادیں ہوں گی، سینہ کی گرماہٹ انہی کے دم سے ہے، یہی نگاہیں روشن کرنے اورکمربستہ ہونے کاسامان ہے، انہی کے طفیل سے اجڑاہوا چمن پھر کھلے گا، اور پھرسے بہارلوٹ آئے گی۔ کشمیری اورپاکستانی مسلمانوں کی کیمسٹری ایک جیسی ہے ۔دونوں کا سرا ایک دوسرے سے یوں ملا ہے، جیسے ان میں کوئی بھی فرق ہو اور نہ ہی کوئی امتیاز۔بھارت کے تئیںان کے دل اور دماغ میں یکساں طورپرنفرت پائی جاتی ہے یہ اس لئے نہیں کہ وہ ہندوہے بلکہ اس لئے کہ وہ سفاک ہندوہے،کیونکہ ہندوتونیپال اورسری لنکابھی ہے ۔سچاایمان اورخالص اسلام دونوں ایسے تار کے مانندہیں کہ جومسلمانوں کوبغیرکسی دنیاوی منفعت کے ایک دوسرے سے جوڑ کراس طرح روشن رکھتے ہیں کہ دنیادیکھ لیتی ہے۔دونوں کا فکری ملاپ، دونوں میں درد اور اپنائیت کا تعلق،دونوں کا حسن و قبح جانناصرف اورصرف ایمان واسلام کے رشتے کاکرشمہ ساز ہے ۔در اصل ان کا محور قوت فکر اور قوت اخذایک ہے ۔بھارت کے خلاف دونوں کا عمل متوازی ہے اور یہ توازن فطری ہے۔ بغیر دونوں کے اشتراک عمل کے اس خطے کے مسلمانوں کاتحفظ ممکن نہیں ۔دونوں ایک دوسرے کے حال آشنا، رمز شناس و معاون و مددگار ہیں۔ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، شانہ سے شانہ ملائے، قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ دونوں کی ہم آہنگی، ہم مزاجی یکساں ہے۔ البتہ اسلام کے نام پرہورہی منافقت اورایمان کے نام پربے ایمانی کرنے والوں پریہ کلیہ نافذ نہیں ہوتا۔جن مسلمانوںکے اندر قوت فکر نہ ہو اور زندگی کو اسباق کے پیرائے میں سمجھنے کی جستجونہ ہو وہ ایمان کے عظیم سرچشمہ سے محروم رہتے ہیں، صحیح معنوں میں زندگی ایمان راسخ سے بنتی ہے، سنورتی ہے اور سنگھار کرتی ہے۔